شادی کیلئے عمر میں توسیع، قانونِ فطرت کی خلاف ورزی: نائب امیر جماعت اسلامی ہند
جھارکھنڈ کے طرز پر دیگر ریاستیں بھی ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنائے: نائب امیر جماعت اسلامی ہند
نئی دہلی: 2/جنوری(پی آر) نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے جماعت کی جانب سے منعقدہ آن لائن پریس کانفرنس میں ملک میں اقلیتوں اور دلتوں کے تئیں بڑھتی ہوئی نفرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”حالیہ کچھ دنوں سے مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ کچھ منظم گروہ دن دیہاڑے ہجومی تشدد کرنے، ان کی فلم بندی اور سوشل میڈیا پرپھیلانے کا عمل انجام دے رہیں۔
مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت آمیز تقریریں اور کھلے عام اسلاموفوبیا کی باتیں کرکے انہیں نشانہ بنایا جارہاہے۔ ان کی عبادت گاہوں پر حملے بڑھ رہے ہیں۔جب بھی کسی ریاست میں الیکشن کا موقع آتا ہے تو نفرت کا یہ کھیل بڑے پیمانے پر کھیلا جانے لگتا ہے۔ حکومت اور پولیس انتظامیہ نفرت پھیلانے والوں سے چشم پوشی کرتی ہے جس سے ان کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈ کی حکومت نے ’پریوینشن آف موب لنچنگ‘ بل پاس کرکے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے۔اسی طرح راجستھان، مغربی بنگال اور منی پور میں بھی یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے ملک کی تمام ریاستوں کو جھارکھنڈ کی طرز پر بل لانا چاہئے۔
انہوں نے خواتین کی شادی کی عمر میں توسیع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا شادی کی قانونی عمر 18 سال پر متفق ہے اور بہت سے ممالک میں اس پر عمل بھی ہورہا ہے مگر ہماری حکومت اس عمر میں اضافہ کرکے قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کررہی ہے جس سے نفسیاتی، طبی، سماجی اور انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوں گے۔ ضرورت عمر میں توسیع کی نہیں بلکہ غربت و افلاس کے خاتمے پر توجہ دینے کی ہے۔ حکومت کو جلد بازی کرنے کے بجائے متعلقہ طبقات کے رہنماؤں اور متعلقہ موضوع کے ماہرین سے بات چیت کرنے کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنا چاہئے“۔
پروفیسر سلیم نے کورونا کی تیسری لہر اومیکرون کے بڑھنے پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے لئے بڑی بڑی ریلیاں منعقد کی جارہی ہیں۔ان میں وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنما شرکت کررہے ہیں جس سے کورونا کی تیسری لہر کو پھیلنے میں مدد مل رہی ہے۔ایسی ریلیوں سے گریز کیا جانا چاہئے۔
گزرے ہوئے سال کے چند اہم واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ہمارا ہیلتھ انفراسٹرکچر کورونا کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوا جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا اور اس اذیت سے ہم آج بھی باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ہماری مجموعی قومی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ غربت و افلاس اور بے روزگاری میں دھکیل دیئے گئے۔حکومت کے پاس اس بحران سے نمٹنے کے لئے جامع معاشی پیکج کا فقدان تھا۔
اس گزرے ہوئے سال میں خواتین، اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف مظالم میں اضافہ نوٹ کیا گیا۔’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘کے لئے مختص فنڈ کا 80 فیصد میڈیا پبلیسیٹی پر خرچ کردیاگیا۔ حکمراں پارٹی کے قائدین ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کی سیاست پر کاربند رہے۔ان باتوں نے ملک کو بڑا نقصان پہنچایا۔ ہماری دعا ہے کہ پھر ایسے واقعات ہمارے ملک میں دوبارہ رونما نہ ہوں“۔کانفرنس میں مختلف ریاستوں سے صحافیوں نے شرکت کی۔