اظہار تعزیت

مولانا محمد یوسف اصلاحی کے انتقال پر امیر جماعتِ اسلامی ہند کا اظہارِ تعزیت

مولانا محمد یوسف اصلاحی نے بھی اپنی مہلت عمر مکمل کرلی اور ٹی کے عبد اللہ صاحب مرحومؒ کے انتقال کے محض 2 ماہ بعد، ایک اور تجربے کار و جہاں دیدہ بزرگ سے جماعت کی صف اول محروم ہوگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔

سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعتِ اسلامی ہند

مولانا مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبول کتابیں ہیں جنہوں نے بلا مبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ان کی کتاب آداب زندگی، نصف صدی سے زیادہ عرصے سے ان گنت مسلمان گھروں کے بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کوشادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس امید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔

مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ سنجیدہ اہل علم سے لے کر عام گھریلو خواتین بلکہ چھوٹےبچے بھی ان کی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں۔ آسان، سادہ لیکن دلکش زبان اور پرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ اللہ نے مرحوم کو عطا کیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر آتی ہے۔۔۔

مولانا مرحوم کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دنیا بھر میں ہندوستان کی اسلامی تحریک کے تعارف کا ذریعہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر میں جماعت اسلامی ہند کے تعارف کے لیے یوسفین کا انتخاب فرمایا۔ ایک سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف جنہوں نے عالم عرب میں جماعت کو متعارف کرایا اور ایک مولانا یوسف اصلاحی جو عالم مغرب میں جماعت کے تعارف کا ذریعہ بنے۔ ناموں کے اشتراک کی وجہ سے بیرون ملک کئی لوگ مولانا یوسف اصلاحی ہی کو سابق امیر جماعت مولانا محمد یوسف بھی سمجھتے رہے۔

مولانا مغربی دنیا میں بے حد مقبول تھے اور امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، جاپان وغیرہ کثرت سے بلائے جاتے رہے بلکہ برسوں سے سال کا کم سے کم نصف حصہ وہ انہی ملکوں میں گذارا کرتے تھے۔مولانا کی تقریریں بھی ان کی کتابوں کی طرح پر کشش اور خاص و عام میں مقبول تھیں۔ شخصی وجاہت، باوقار آواز، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی خوبصورت اردو، اور امیدیں پیدا کرنے والا اور حرکت و عمل پر آمادہ کرنے والا پیغام۔۔۔ ان ساری خصوصیات کےامتزاج کی وجہ سے ان کے خطابات میں بڑی کشش و جاذبیت ہوتی تھی۔

مولانا ایک اچھے قاری بھی تھے۔ان کی آواز میں وقار وبلند آہنگی اور لطافت ونغمگی ، دونوں خصوصیات کا نادر امتزاج تھا۔ اس مخصوص آواز میں ان کی تلاوت قرآن، وجد کی کیفیت پیدا کردیتی۔ آج بھی ان کے انتقال کی خبر پر لاشعور نے جو یاد پوری قوت سے تازہ کی ہے وہ مرکز کی مسجد میں فجر کی نماز میں سنی ہوئی ان کی تلاوت ہی کی یاد ہے۔۔۔۔

آداب زندگی کے مصنف کی شخصیت اسلامی سلیقہ مندی اور نفاست ذوق کا خوبصورت نمونہ تھی۔ لباس، کھانے پینے کے اطوار، گفتگو، نشست و برخاست۔۔ ہر معاملے میں اعلیٰ درجے کی شائستگی، وضعداری اور رکھ رکھاو ان کی شخصیت کا نہایت پر کشش پہلو تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی ہمہ گیر و طویل خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!