شخصیاتمضامین

سر سید احمد خان: مفکرِ قوم، رہبرِ ملت، صاحبِ علم اور ذی شعور شخصیت

از: عرشیہ رفیق (ایم ۔ اے) آکولہ

ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی پس منظر کی اک مضبوط کڑی سمجھی جانے والی اور ملک کے باشندوں کی عصری تعلیم کے حصول میں سنگ بنیاد کی طور پر مانی جانے والی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بلا شبہ آج جو ہمارے معاشرے میں مذہبی روایتی تعلیم کے ساتھ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے والی عصری تعلیم کا سلسلہ جاری ہے وہ سید احمد خان صاحب کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ انھوں نے اس وقت کی روایتی تعلیم کے حامی اور عصری تعلیم کے مخالفین کی پر زور مخالفت کے باوجود اپنی ساری توجہ ،قوت، سرمایہ اور وقت صرف کر دیا۔ یہاں تک کہ علماء وقت کے لگائے گئے کفر کے فتویٰ کو بھی سہہ گئے لیکن ان کے پایۂ استقلال میں کوئی فرق نہ آیا۔ چلیں کچھ ان کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں۔

سر سید احمد خان کی پیدائش 17/اکٹوبر 1817ء کو دہلی میں ہوئی۔ ان کے والد میر متقی ،اکبر شاہ والی دہلی کے دربار میں فائز تھے۔والدہ نہایت نیک متقی خاتون تھیں جو فرید الدین أحمد کی صاحبزادی تھیں۔سید احمد خان کو ابتداءمیں قرآن مجید کی تعلیم دی گئی۔اسکے بعد اس دور کی روایت کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم دی گئی۔جس میں گلستان بوستان فارسی کی اور شرح ملا شرح تہذیب وغیرہ عربی زبان کی کتب شامل ہیں۔آپ ایک زندہ دل اور خوش مزاج نوجوان تھے۔

1838ء میں والد کا سایۂ عاطفت سر سے اٹھ گیا۔ والدہ کو قلعہ کی جانب سے کچھ وظیفہ ملتا تھا۔گھر کے حالات کے پیش لفظ آپ ملازمت کرنے لگے اس وقت ان کی عمر بائیس برس تھی۔اسی دوران انہوں نے ایک کتاب خاندان تیموریہ کی شجرہ بندی پر لکھی جو” جام جم ” کے نام سے 1840میں شائع ہوئی۔اس میں امیر تیمور سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک مختلف خاندانوں کے 43 بادشاہوں کا تذکرہ ہے۔سید احمد خان نے تحقیقی کام کرنا شروع کر دیا اور منصفی کا امتحان پاس کرکے 24دسمبر1841 کو منصف مقرر ہوئے۔

انکی علمی خدمات بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے وفات تک کے واقعات عربی زبان میں‌”القلوب”نام سے شائع کی۔ایک اور کتاب” تحفہ حسین” کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ ولیم میور کی کتاب کے جواب میں “لائف آف پروفیٹ لکھی۔اسباب بغاوت ہند لکھی۔1842ء میں بہادر شاہ ظفر نے انہیں انکے خاندانی خطاب”جواد الملک عارف جنگ”سے نوازا۔1846 میں سر سید کا تبادلہ دہلی ہوا۔سر سید کو بھائی کی ابدی جدائی کا صدمہ پہنچااور گھر کے اخراجات کی تمام تر ذمے داری انکے کندھے پر آگئی۔1857میں بغاوت کے بعد بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا اور ہندوستان پر انگریزی حکومت کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔

غدر کے نامساعد حالات میں انہوں نے کئی لوگوں کی جان بچائی۔,1857ء میں پہلی جنگ آزادی کی ناکامی اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو تعصب و حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔انگریزوں کے نزدیک مسلمان کا مطلب ہی باغی ہوگیا۔مسلمانوں کی تعلیم سے دوری انکی پستی کا اہم سبب تھا۔یہیں سے سر سید کے دل اور دماغ میں مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کی فکر لاحق ہوئی۔اور یہ خیال دل میں گھر کر گیا کہ انگریزی تعلیم سے برگشتہ رہ کر مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خوش حالی واپس نہیں آسکتی۔

اسی مقصد کے پیش نظر اپریل 1869ء میں بنارس سے انگلستان کا سفر کیا تاکہ وہاں کی تعلیم و تربیت کا جائزہ لیں کہ کس طرح انگریزی حکومت زیادہ تر دنیا پر حکمرانی کر رہی ہی۔اس سفر کی تفصیلات و ماحصل معلومات سفر نامہ یورپ میں موجود ہیں۔1869 میں ان کو C.S.Iکا خطاب دیا گیا اور انہیں سر سید احمد خان کہا جانے لگا۔ وہیں کے انہوں نے ہندوستانی تعلیم کے نقصانات انگریزی زبان میں شائع کیے۔وطن واپسی کے بعد انگریزی رسالہ spectetor اور tetler کی طرز پر تہذیب الاخلاق شائع کیا۔ اسکے ذریعے اپنے خیالات اور مشاہدات عام لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ جس جن کو ہندوستانی عوام کی طرف سے خوب پذیرائی ملی۔اور ان میں تعلیم کی اہمیت جاگزیں ہوئی۔

حالانکہ مذہبی طبقے کی جانب سے آسکی مخالفت ہوئی اوران کو سخت سست بھی کہا گیا اور کفر کا فتویٰ بھی جاری کیا گیا۔ اس پر آشوب دور میں مسلمانوں کو عصری علوم پر آمادہ کرنے اور ان کی تعلیم کی طرف رغبت دلانے کا بیڑہ سر سید نے اٹھایا۔ان کو اپنوں ہی کی تنقید کا سامنا کر نا پڑا گی لیکن وہ اس دشوار گزار اؤر پر خطر راہ پر بغیر کسی سہارے کے نکل گئے۔ایک بلند و اعلیٰ نصب العین یعنی قوم و ملت کی ترقی اور پاسداری۔بنا کسی ذاتی غرض اور فائدہ کے۔

سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اور پسماندگی کی انسداد کے لیے کئ اقدامات کیے ۔وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مسلمان کسی بھی میدان میں کمزور نہیں۔ایسے دور میں جبکہ انگریزی تعلیم کا ناتو وجود تھا اور نہ ہی ذریعہ اوپر سے ہندوستانی عوام خاص کر مسلمان اس کو فرنگی زبان سمجھتے اور اپنے قدیم طریقہ تعلیم کو چھوڑ نا نہیں چاہتے تھے، سر سید نے ان میں تعلیمی بیداری پیدا کی اور انہیں عصری تعلیم سیکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کی یہ کوششیں بار آور ثابت ہو ئیں اور رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف راغب ہونے لگے۔
31اگست1873کو علی گڑھ میں ایک مدرسہ قائم کیا۔شدید مخالفت ہوئی پر آپ نے اپنا کام جاری رکھا۔
پھر علی گڑھ میں محمڈن کالج کی بنیاد رکھی۔یہی کا لج بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔

دوسری جانب سر سید نے سیاسی سطح پر مسلمانوں کے تعلق سے انگریزی حکومت کی راۓ کو بدلنے کی کوشش کی اور حالات کے حقیقت پسندانہ جا ئزے کو مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔سر سید احمد خاں کی بلند ہمتی اعلی ظرفی وسیع نظری اور ٹھوس اقدامات کرنے کے جذبہ نے ان کے ناقدین کو بھی انکے مداحوں میں شامل کر دیا

سر سید احمد خاں بلا شبہ اپنے زمانے کے بلند پایہ مفکر قوم رہبر ملت صاحب علم اورذی شعور شخصیت تھے۔ جنہوں نے ذلالت و پستی کی طرف گامزن قوم کو علمی شعور عطا کیا۔اور ان کی کاوشوں اور علی گڑھ تحریک کے ہمنواؤں کی محنت مسلمانوں میں تعلیمی و تہذیبی تشخص کی بحالی کا ایک اہم اور موثر ترین وسیلہ ثابت ہوئی۔

ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے باوقار اداروں میں سے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس تمام جد و جہد کی منہ بولتی تصویر ہے۔آج مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اور پسماندگی کا سد باب کرنے اور ان میں پھر سے تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئے سر سید کی ہی طرح ایک روشن شمع کی ضرورت ہے جو خود کو جلا کر ہمارے ذہنوں میں اجالا کر دے۔
سر سید احمد خاں27مارچ 1898کو اپنی کاوشوں کا ثمر چھوڑ کر اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔
بلاشبہ ایسے بےلوث رہنما صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!