مسلم قیادت ہی مسلم عوام کی سب سے بڑی دشمن ہے!
عمیر انس
یہ بات تو میں نے بڑے ادب اور احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہی تھی، اگر حد ادب میں ذرا گستاخی کی اجازت ہو تو کہنا چاہیے کہ مسلم قیادت ہی مسلم عوام کی سب سے بڑی دشمن ہے، ہاں نادان دشمن، کیوں؟
بیشتر مسلم قائدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ انتقال کر بھی گئے تو انکے مزار کی خاک بھی قوم کی فلاح کے لیے کافی ہے اس لیے قیادت کی دوسری صف تیار کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، سارے بڑے علماء اپنے پیچھے اندھ بھکت معتقدین اور مریدین دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، سوال کرنے والے، با صلاحیت، حوصلہ مند اور انکی کمی کو پوری کرنے والے کسی بھی مرید سے انہیں سخت نفرت ہوتی ہے،اور سیکولر قائدین کی تنگ نظری پر تو کتابیں لکھی جانی چاہیے، کسی بھی چمکدار سیکولر چہرے کو لیجئے اور دیکھیے کہ اس نے اپنی پارٹی میں اور اپنے حلقے میں اپنے علاوہ کسی بھی مسلمان چہرے کو فروغ پانے کے ہرگز اجازت نہیں دی ہے.
کانگریس کے ایک بڑے قائد اللہ رحمت فرمائے انہوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ کانگریس اعلیٰ کمان تک اپنے علاوہ کسی مسلمان کو وہاں تک پہنچنے نہیں دینگے۔ لہٰذا خلاصۃ کلام یہ ہے کہ مسلمان نوجوان بغیر کسی برگد کے پیڑ سے دور رہ کر خود کو قائد ثابت کرنے والی صلاحیتیں حاصل کریں، برادران وطن کے درمیان وسیع تعلقات کا نیٹ ورک بنائیں، اپنے خیالات کو اُردو اخبارات کے Eco system سے باہر لے جائیں.
اور ایک اصول یاد رکھنا چاہیے، اکیلے آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں، لیکن با جماعت آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں، جہاں رہیے ٹیم بنا کر کام کریں، بھروسہ کریں اپنے جونیئرز پر، اپنے ساتھیوں پر، انکو بهکت یا مرید یا سامعین بنانے کا جرم نہ دہرائیں، خطرہ مول لیں، صلاحیت مند نوجوان سے ڈریں نہیں، بس آپ آگے بڑھتے جائیں اور اسکے لیے جگہ چھوڑتے جائیں، دو چار تقریریں اسکو کرنے دیں، ایک آدھ اخبار میں اسکا بھی فوٹو آجائے تو گھبرائیں نہیں، موجودہ دور خانقاہی قیادت کا نہیں ہے.
اور سب سے اہم بات، اپنا دائرہ اثر بڑھانے کی فکر کرتے رہیے، پبلک میں بھی اور انتظامیہ میں بھی، سیاسی حلقوں میں بھی اور اہل تجارت میں بھی، اگر اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے تو وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھنا بھی کوئی عیب نہیں ہے، لیکن کونسلر، پنچایت میں، اسمبلی میں خود کو ثابت کیے بغیر تو یہ خواب مت دیکھیے.
میں پورے اعتماد سے عرض کر رہا ہوں کہ سلمان خورشید اب کسی مسلمان کو سلمان خورشید کے مقام تک پہنچنے نہیں دیں گے، کوئی مدنی اور کوئی اویسی آپکو اپنے برابر پہنچنے کا موقع کبھی نہیں دیگا، کوئی اعظم خان اور کوئی صدیقی کسی مسلمان کو اپنے برابر نہیں آنے دیگا، اور انسانی فطرت تو یہی ہے، اس میں ان حضرات کی کیا غلطی ہے، اس دنیا میں دوسروں کو کچل کر ہی لوگ عظیم بننے میں کامیاب ہوئے ہیں، خود کو ختم کرکے عظیم بننے والے یا تو پیغمبر ہیں، یا اہل دل، آپ ان دونوں میں جتنا توازن رکھ سکتے ہیں رکھیے.
دوسروں کو کچل کر عظیم بننے والوں میں ایک بات مشترک ہے، سب نے اپنے درمیان اندھ بھکت اور مریدوں کی صفیں تیار کریں، صلاحیت مند لوگوں کو نکال بھگایا، اور اپنی جہالت اور نا تجربے کاری کو خوب صورت مذہبی یا دانشورانہ نعروں میں چھپا دیا، میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ مصنف بھی ہیں لیکن آپکا دوست ایک پریس ریلیز لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو کوشش کریں یہ کام اسکو ہی دیں، پہلی 2 چار غلطیاں ہونگی.
اگر آپ شعلہ بیان مقرر بھی ہیں اور آپکا دوست ذرا مدھم تقریر کرتا ہے پھر بھی اسکو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے رہے، جب آپ اپنی ٹیم والی قیادت کا اثر بڑے پردے پر دیکھیں گے تو آپکو خوشی ہوگی کہ آپ کے اکیلے سب کچھ کرنے سے آپ بہت کچھ نہیں کر پاتے!