موہن داس کرم چند گاندھی اور فلسفہ عدم تشدد
از: محمد مشاہد حسین، بنگلورو
دوستوں آج ۲ اکتوبر یعنی گاند ھی جنتی ہے۔موہن داس کرم چند گاندھی بھارت کے ان لیڈروں میں سے ایک تھے جن کا شمار دنیا کے بڑے لیڈروں میں ہوتا ہے۔بھارت کی آزادی میں گاندھی جی کا اہم رول رہا ہے۔بھارت میں گاندھی جینتی ایک ایسے موقع پر منا ئی جارہی ہے کہ جب ملک بھر میں مہاتماگاندھی جی کے اصولوں۔ تعلیمات۔اور اہنسا کا اسی انداز میں قتل کیا جارہاہے جس طرح خودگاندھی جی کو ناتھورام گوڈسی نے قتل کیا تھا۔ یہ بھارتیوں کیلئے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم اس دور میں داخل ہوگئے ہیں جہاں غنڈوں کو تحفط دیاجارہاہے۔ قاتلوں کو پناہ دی جارہی ہے امن کے دشمنوں کو اعزازات سے نوازاز جارہاہے۔ انہیں محب وطن دیش پریمی تصور کیا جارہاہے۔
گاندھی جی کا فلسفہ عدم تشدد یعنی اہنسا کی ساری دنیا میں سراہا جاتا ہے۔ 15جون 2007ء کو اقوام متحدہ united nation کی جنرل اسمبلی نے ۲اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن منانے کی قرار داد پیش کی گئی جو 27جون 2007ء کو منظور کرلی گئی۔ اور آج پوری دنیا میں عدم تشدد یعنی اہنسا کے دن سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ گاندھی جی وہ شخصیت ہیں جن کے مداح یعنی ان کو اپنا استاد ماننے والوں میں دنیا کی معروف شخصیتوں میں نیلسن منڈیلہ۔کنگ مارٹن لوتھر۔ باراک اوباما۔ دلائی لاما۔ اور بہت سارے نامور شخصیات گاندھی جی کے مداح رہے ہیں۔ انہوں نے مہا تما گاندھی کو اپنے لئے ایک مثالی شخصیت قرار دیا ہے۔ انسانی اقدار کی پائے تکمیل کی خاطر گاندھی جی کی نمایاں عملی جدوجہد کی بناء پر گاندھی جی کو مہاتما اور بابائے قوم کا عوام خطاب ملا۔
گاندھی جی نے اپنے وزیروں کو سادگی کی زندگی گزارنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ میں رام چند ر اور کرشن کا حوالہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تاریخی ہستیاں نہیں تھیں میں مجبور ہو کہ سادگی کی مثال کیلئے ابو بکر اور عمر کے نام پیش کرتا ہوں وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے، پر انہوں نے فقیروں والی زندگی گزاری اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر ہندوستانیوں کو کامیاب طریقہ سے ملک کو چلانا ہوتو یہ لازم ہے کہ حضرت امام حسین کے نقش قدم پر چلیں اور مجھے حضرت امام حسین کی مانند ۲۷افراد پر مشتمل فوجی دستیاب ہوجائیں تو میں ۴۲گھنٹوں میں آزاد ہندستان کے خواب کی تعبیر بتا سکتاہو ں۔
مہاتما گاندھی کا ماننا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی۔کبھی بھی تشدد اور جنگ سے کسی بھی مسئلے یا تنازع کا مستقل حل نہیں ہوا ہے۔ جنگ سے مسئلے کچھ وقت کے لئے تو ضرورٹل جاتے ہیں۔طاقتور کمزور کو ہرا کر۔ اس سے عارضی طورپر زبردستی اپنی بات منوا تو لیتا ہے۔ لیکن تشدد یا جنگ سے کوئی ایسا حل نہیں نکلتا جو دونوں فریق کو رضاکارانہ طور پر منظوراورپائیدار ہو۔اگر تشدد کا جواب تشدد سے دیا جاتا ہے۔ تو اس سے تشدد ہی بڑھتا ہے۔ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ تشدد کے خلاف لڑائی عدم تشدد کے ذریعہ ہونی چاہئے۔عدم تشدد ہی تشدد کا خاتمہ کر سکتا ہے یا اسے کم کر سکتا ہے۔ تشدد کا جواب اگر تشدد سے دیا جائے گا تو اس سے تشدد بڑھے گاہی۔کم نہیں ہوگا۔
گاندھی جی کی سوچ تھی کہ جب تک بھارت میں قومی ایکتا پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک بھارت سے انگریزوں کو بھگایا نہیں جاسکتا۔جب 1944 میں بھارت میں ہندو مسلم فساد کا بازار گرم ہواتو اس کے خلاف انہوں نے دہلی میں ۱۲دنوں کی بھوک ہڑتال کی اور جب ان کو یقین دلایاگیا کہ فساد کی چنگاری بجھ چکی ہے تب انہوں نے بھوک ہڑتال ختم کی۔اور1921ء میں گاندھی جی نے ”ٹیکس نہ دو“ کی تحریک چلائی۔واضح رہے کہ گاندھی جی کے اُفق سیاست پر نمودار ہونے کی وجہ سے قومی تحریک عوامی جد وجہد میں تبدیل ہوچکی تھی۔1920میں بھارت میں خلافت تحریک کی شروعات ہوئی۔جس کے سربر اہوں میں مولانا محمد علی۔مولانا شوکت علی۔مولانا ابو الکلام آزاد۔اورحکیم اجمل خاں کے علاوہ علمائے دیوبند شامل بھی شامل تھے۔
گاندھی جی کی رہبری میں جب کانگریس نے خلافت تحریک کی تائید کا اعلان کیا تو مولانا محمد علی جوہر اور گاندھی جی ایک پلیٹ فارم پر دکھائی دینے لگے۔
یہ ایک عوامی تحریک بن گئی تھی لیکن آگے چل کر یہ تحریک نا کام ثابت ہوئی تو گاندھی اور علی برادران کو نظر بند کردیے جانے کے بعد ملک کے سیاسی حالات میں انتشار پیدا ہو گیا تھا۔اورمہاتما گاندھی نے1922 میں موت یا آزادی کا نعرہ لگانے کی وجہ سے قید کی سزادی گئی۔انہوں نے رہائی کے بعد برطانوی سامراجیوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کی۔ان کے اس اقدام سے برطانوی سامراج کو شدید نقصان پہنچایا بالآخر15اگست سن 1947 کو بھارت انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی۔
گاندھی جی کا قومی ایکتا کا نظریہ ذات پات اور علاقائی حدود سے اونچا تھا۔ انہوں نے افریقہ میں قیام کے دوران کا لے اور گوروں کے درمیان تفریق کو مٹانے میں سرگرم کو شش کی اور وہاں کے سیاہ فام باشندوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی۔ گاندھی جی کے تمام آدرش واصول خواہ وہ اہنسا ہو، ستیہ گرہ ہو یا بھائی چارہ ہو، نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے اور عالمی پیمانے پر مفکروں، قلم کاروں اور فنکاروں نے انہیں سراہا۔ دوسری طرف یہ بھی ایک سچائی ہے کہ گاندھی جی کے قومی اتحاد کے نظریہ کو منافرت پھیلانے اور پھوٹ ڈالنے والوں نے کبھی پسند نہیں کیا۔ جس کی قیمت گاندھی جی کو اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔
آزادی کے بعد30جنوری 1948کو نئی دہلی میں مہاتما گاندھی جی کونتھورام گوڈ سے نام کے ایک ہندو جنونی گولی مار کرانہیں قتل کردیا۔یہ بھارت کی آزادی کے بعد پیش آنا والا سب سے بڑا دہشت گرد حملہ تھا۔گوڈ سے کا تعلق ہندو مہا سبھا اورآر یس یس سے تھا۔اس عظیم سانحہ پر نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے ممالک نے رنج وغم کا اظہار کیا۔اور آج بھی ہندومہا سبھا اور آر یس یس مہا تما گاندھی کے قاتل کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔
ناظرین انسانی تاریخ کے صفحات آج بھی ان عظیم انسانوں کے کارناموں سے جگمگارہے ہیں جنہوں نے انسانی زندگی کی بقا اور ترقی کی خاطر اپنی گران قدرخدمات انجام دیں۔ایسی ہی تاریخ ساز شخصیات میں موہن داس کرم چند گاندھی کا شمار کیاجاتاہے۔ان کے ہمہ جہت شخصیت اورگراں قدر کارناموں نے انہیں بابائے قوم اور مہاتما گاندھی کے نام سے مقبولیت کاتاج پہنایا۔