مولاناکلیم صدیقی کی گرفتاری، مسلم قوم کیلئے فاشسٹ سرکار کا واضح پیغام ہے
✍: سمیع اللّٰہ خان
ابھی ابھی اترپردیش پولیس کے اے۔ڈی۔جی لاء اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے بزرگ دینی رہنما مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کی آفیشل تصدیق کردی ہے، اور مولانا کے خلاف تبدیلئ مذہب کے حوالے سے سخت الزامات عائد کیے ہیں ۔
فجر بعد موبائل کھولتے ہی غیرمصدقہ خبریں آنے لگیں تھیں کہ مولانا کلیم صدیقی صاحب کو گرفتار کرلیاگیا ہے، ہم نے توقف کیا کہ اتنے بڑے اور بزرگ عالمِ دین کو شاید گرفتار نہ کریں اور پوچھ تاچھ کرکے چھوڑ دیں، مگر اب یہ خبر آفیشل ذرائع سے مصدقہ ہوچکی ہے
بہت بڑی خبر ہے، انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن
مولانا کلیم صدیقی صاحب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے نمائندہ اور ملک و بیرون ملک ذمہ دار مسلمان کے طورپر جانے جاتےہیں
ایسے بڑی سطح کے حامل مؤقر اور بزرگ عالمِ دین کو، انسداد دہشت گردی دستہ کے ذریعے اٹھا لیا جانا، پھر گھنٹوں گھنٹوں ان کی گرفتاری کی تصدیق بھی نہیں کرنا، یہ امر کس قدر شرمناک ہے، جبکہ عوامی نمائندوں اور شخصیات کو اگر پولیس اور جانچ ایجنسیاں پوچھ تاچھ کے لیے بھی بلانا چاہتی ہوں تو پروٹوکول مرتب کرکے کرتی ہیں تاکہ کثیر عوامی مقبولیت رکھنے والے کے اچانک غائب ہوجانے سے ہراس نہ پھیلے، لیکن شاید یہ سب اب ہندوﺅں کے لیے مخصوص رہ گیا ہے مسلم عوامی نمائندوں اور رہنماﺅں کو بےحیثیت کرکے گرفتار کرنا موجودہ ہندوراشٹر کا نیا ضابطہ بن چکا ہے۔
کلیم صدیقی صاحب سے اختلاف و اتفاق اپنی جگہ، لیکن اس وقت ملّی سطح پر جو موقف بنےگا وہ مسلمانوں میں اُن کی رسائی اور شہرت کےحساب سے بنے گا، دشمن کی نظر میں وہ مُسلم چہرہ ہيں اور دنیا کی نظر میں بھی ایک قدآور مذہبی مسلمان، ایسے میں اُن کی گرفتاری کے ذریعے سرکاری ایجنسیوں کے اترپردیش الیکشن کےلحاظ سے کیا اہداف ہیں؟ اور مسلم کمیونٹی کے لیے فاشسٹ سرکار کی طرف سے اس میں کیا پیغام ہے؟ واضح ہے ۔
مولانا کلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری میں مسلم قیادت کے لیے عبرت ہی عبرت ہے، میں نے پہلے بھی کئی بار کہا تھا کہ، جب کسی کمیونٹی کی مشہور شخصیات اور نمائندوں پر متعصبانہ سرکاری ٹرائل شروع ہوتاہے تو اسے ایک منٹ کے لیے بھی برداشت نہیں کرنا چاہیے، اہم شخصیات پر ظالمانہ کریک ڈاؤن یہ متعلقہ کمیونٹی کی موجودہ نظام میں قابلِ رحم حیثیت کو بتلاتا ہے۔
ملکی سطح پر مسلمانوں کی کئی ایک مؤقر شخصیات پر مودی راج میں کبھی انتخابی فائدوں کے لیے تو کبھی واقعی شخصیت کو کمزور کرنے کے لیے کئی بار حملے کیے گئے مگر مسلمانوں کی مرکزی قیادتوں نے ان کے خلاف کوئی بھی مؤثر آئینی کارروائی نہیں کی۔
جبکہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے گھر پر جب دہلی پولیس نے چھاپہ مارا تھا تبھی تمام مسلم لیڈرشپ کو ایک زبان ہوکر سڑکوں پر آجانا چاہیے تھا، اگر پہلے ہی اس ذلت آمیز ظالمانہ کریک ڈاؤن کےخلاف سڑک پر آجاتے تو شاید ایک بزرگ عالمِ دین کو رات کے اندھیرے میں کسی بدمعاش کی طرح اغوائی انداز میں اٹھا لینے کی ہمت نہیں بڑھتی، اترپردیش کے جن لوگوں کا ہمیشہ یہ کہنا ہوتاہے کہ: اگلا نمبر آپکا ہوگا۔
انہیں میں خبر دینا چاہتاہوں کہ مولانا کلیم صدیقی صاحب کا بھی نمبر آچکا! جو حضرات آر ایس ایس سے اتحاد اور بھاجپا سے سمجھوتے کو فاشسٹ یلغار سے چھٹکارے کا ذریعہ سمجھتے ہیں انہیں میں بتانا چاہتاہوں کہ، ظالموں کے کیمپ میں کبھی بھی امن نہیں ملتا، اُف ! کیا دن دیکھنے کو مل رہے ہیں: ہمارے “بزرگانِ دین” راہ چلتے اٹھا لیے جارہےہیں، یہاں اب نجانے کون کب بدامنی کا شکار ہوجائے، خدا جانے، خدا ہی حافظ ۔
اللہ سے دعا ہےکہ وہ مولانا کلیم صدیقی صاحب کو سلامت رکھے، ان کے تمام رفقاء سمیت انہیں، بعافیت واپس لوٹائے، امت کے حال پر رحم فرمائے.آمین!