بزمِ امیدِ فردا کے زیرِاہتمام ”یومِ اساتذہ: تعلیم و طلباء-اساتذہ کے افکار“ پر آن لائن ویبنارکا کامیاب انعقاد
استادوں کی محنت ہی ہے جو ہمیں سکندر، ٹیپو، اقبال اور دیگر کامیاب قائدین ورہنما ملے: مرزا عظمت اللہ
اساتذہ کا قرض سوائے خدا کے کوئی نہیں اتار سکتا: عرفان اللہ
بنگلورو: 6/ستمبر (پی آر) بزمِ امیدِ فردا کے زیرِ اہتمام بروز اتوار 5ستمبر 2021 شام 8:30 بجے سے برموقع ”یومِ اساتذہ“ ایک آن لائن ویبنار بعنوان ”تعلیم و طلباء – اساتذہ کے افکار“ کا بہت ہی کامیاب انعقاد عمل میں آیا۔سید عرفان اللہ، سرپرست بزمِ امیدِ فردا نے تلاوتِ آیاتِ ربانی سے نشست کا آغاز کیا اور محترمہ صبا انجم عاشی نے اپنے استاد ڈاکٹر عادل کولاری کی نعتِ رسولؐ پیش فرمائی۔ اس نشست کی صدارت یس مرزا عظمت اللہ صاحب، ایڈیشنل کمشنر آف کمرشل ٹیکس، بنگلور و سابق رجسٹرار، کرناٹک اردو اکادمی نے فرمائی۔ ”آج یومِ اساتذہ ہے یعنی استادوں کا دن اس لئے ہم نے تمام اساتذہ کو مہمانانِ خصوصی شامل کیا ہے اور اس سے اچھی تہنیت بزمِ امیدِ فردا اساتذہ کو نہیں پیش کرسکتی اس لئے کے سوائے خدا کے کوئی بھی اساتذہ کا قرض ادا نہیں کرسکتے“ استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے عرفان اللہ نے اپنا اظہار پیش کیا۔
صدرِ نشست جناب مرزا عظمت اللہ نے جہاں پروگرام کے انعقاد کی ستائس کی وہیں بہترین صدارتی کلمات سے بھی بہت ہی بہترین انداز میں نوازہ۔ مرزا عظمت اللہ نے فرمایا ”انسان کی قدرتی نشو نما کے ساتھ ساتھ بہترین تعلیم اور اچھی تربیت کا حاصل کرنا ایک اچھے انسان بننے کی ضامن ہوتی ہے“ آگے فرمایا ”اگر ہمیں اردو زبان و ادب کو زندہ رکھنا ہے تو آج کی جدید ٹیکلنالوجی کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہوگا، اگر ہم اس نئی ٹیکلنالوجی سے ہٹ کر چلیں گے تو ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے“ آپ نے تعلیمی نظام کے تعلق سے فرمایا ”تعلیمی نظام بدلتے رہتے ہیں، ہمیں ان محقیقین کی تحقیقات کا بغور مطالعہ کرنا چائیے جو آج کے دور کی مناسبت سے تعلیمی نظام کے تعلق سے تحقیق میں لگے ہوئے ہیں‘‘
مزید کہا کہ ”پہلے بچوں کو گھروں میں ماں یا بڑھے بڑھوں کے ذریع ابتدائی تعلیم دی جاتی تھی اس کے بعد مدرس میں انہیں داخل کیا جاتااور اس کے بعد بڑی درس گاہ اور اس سے عالیٰ تعلیم کے لئے جامع میں داخل کروایا جاتا تھااور یہ ہمارے استادوں کی ہی محنت ہے جو ہمیں سکندر، ٹیپو، اقبال اور دیگر کامیاب قائدین ورہنما ملے“ آپ نے بزمِ امیدِ فردا کے سرپرست سے خواہش ظاہر کی ہے کہ آج پڑھے یا پیش کئے گئے تمام مضامین، مقالے یا تاثرات کو ایک کتابی شکل دے کر اس کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کریں۔ اس لئے کہ ایسے پُر آشوب دور میں بھی جو ایسے بہترین کام ہو رہے ہیں انہیں ضرور قلم بند کرنا چائیے۔
مہمانان میں محترمہ زرینہ خورشید، ای سی او- میسور ”معاشرے میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے میں معلم کا کردار“ کے تعلق سے بہت ہی کارآمد اور مفید باتیں پیش کیں اور آئندہ کے لئے اساتذہ کو مشورہ دیا کہ ہم اساتذہ کو دوسروں کے بچوں کو اپنے بچوں سا پیار و دلار کرنا چائیے کیوں کہ بچوں کے لئے ان کی والدہ کے بعد اساتذہ ہی ان کی ماں ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر داؤد محسن، پرنسپل ملت کالج – داونگیرے ”آن لائن تعلیم کے مثبت و منفی اثرات“ کے تعلق سے اپنے تاثرات پیش کرنا تھا لیکن پروگرام سے کچھ وقت قبل انہیں ناتی ہونے کی خوش خبری ملی جس کی وجہ سے وہ اپنے تاثرات پیش کرنے سے معذرت چاہ لی لیکن کچھ وقت کے لئے وہ آن لائن آکر اپنی شرکت درج کردی تھی۔ ڈاکٹر ثناء اللہ شریف- وظیفہ یاب پروفیسر، بنگلور ”معلم کے اوصاف“ کے عنوان سے بہت ہی خوبصورت و مانی خیز مضمون پیش کیا جس میں آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کے دور میں صحابی رسولؓ کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے اساتذہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے پیشہ کے تئیں وفادری رکھیں اور اپنے کردار کا خود جائزہ لیں۔
ماہر افروز- سنیئر لکچرار ڈائیٹ – دھارواڑ یونیورسٹی ”نئی تعلیمی پالیسی آن لائن تعلیم کے تناظر میں“ کے تعلق سے اپنا اظہارِ خیال کیا چوں کہ محترمہ ابتدائی تعلیم کے نصاب پر ڈائیٹ سے منسلک ہیں آپ نے اپنے تجربات کو حسنِ خوبی کے ساتھ پیش کیا اور بتایا کس طرح اساتذہ کو اپنے طلباء کے ساتھ پیش آنا چائیے انہوں نے دورانِ گفتگو امیر خان کی فلم ”تارے زمین پر“ کے استاد کا ذکر کیا کیسے وہ پہلی مرتبہ جب اپنی کلاس میں داخل ہوتا ہو تو بچوں سے استاذ کی طرح نہیں بلکہ ایک جوکر کے بھیس میں آکر بچوں کو اپنے طرف راغب کرتا ہے جس سے بچے اس کی خوب گھل مل جاتے ہیں اور پھر استاد کیسے بچوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیب ہوتا اور اس عمل کا ہی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آخر میں ایک بچہ جو ذہینی طور پر افسردہ ہوتا ہے ایک دن کیسے مصوری کے کھلے مقابلے میں اسکول کے پہلا انعام حاصل کرتا ہے اور جو داخلہ کے پہلے دن سے خاموش اور غمگین رہتا ہے کیسے وہ ذہینی طور پر بالکل چست و چوبند ہو جاتا ہے اور پھر اپنی معمول زندگی پر لوٹ آتا ہے۔ محترمہ نے بہت ہی اچھے انداز میں بتایا کہ ایک استاد کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے طلباء کے ساتھ پوری ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آئے۔
محمد عبداللہ مدثر آزاد-سی آر پی، ضلعی معتمد آئیٹا- بیدر ”سسکتی اردو کا حال“ سے اردو زبان اور اردو مدارس کے تئیں اپنا پورا درد نکال کر باہر رکھ دیا۔ انہوں نے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کچھ اساتذہ کی لاپرواہی ہمارے بچوں کا بیڑا غرق کئے ہوئے۔ اگر ہم اساتذہ ایمانداری سے اپنا کام کریں، اپنا فرض ادا کریں، وقت کی پابندی کریں، ہمارے ادارے کے اثاثے کی فکر کریں، ہمارے بچوں اور نوجوانوں پر ہم پوری توجہ دیں تو یقینا اردو زبان و ادب کے فروغ میں ہمارا کلیدی کردار ادا ہوسکتا ہے۔
انیس فاطمہ نور، معلمہ- بنگلور ”حالاتِ حاضرہ میں تعلمی معیار“ نے اپنے مختصر مگر جمع انداز میں یوں مضمون پیش کیا مانو سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔ محترمہ نے آن لائن پیش آرہی دشواریوں کا ذکر کیا۔ کیسے طلباء و اساتذہ کو آن لائن کے لئے ڈیٹا اور پھر موبائل اور پھر نیٹ ورک کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ان تمام سے اگر نکل بھی جائیں تو پھر ایک گھر میں ایک سے زائد بچہ اور ایک سے زائد کلاس کی ترتیب وغیرہ مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ کل ملاکر محترمہ نے ناظرین کو اپنے مضمون سے بہت متاثر کیا۔ آخر میں نور زہرہ سی، لکچرار، ہری ہر اور جنرل سکریٹریAIUWDCT ”غیر سرکاری اردو ہپری پرائمری اساتذہ کا کلیدی کردار اور ہماری ذمہ داری“کے عنوان سے اپنے تاثرات پیش کرنا تھا لیکن ٹیکنیکی وجوہات کی وجہ سے وہ آخری کوشش تک جڑ نہ سکیں اور اس طرح وہ اپنی بات نہیں رکھ پائیں لیکن ایک مسیج کے ذریعہ سرپرست امیدِ فردا سے معذرت چاہ لیں۔
صبا انجم عاشی نے بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ نظامت کے فرائض انجام دئے۔ سید عرفان اللہ، سرپرست و بانی، بزمِ امیدِ فردا نے تمام ناظرین و صدرِ محفل اور مہمانان اساتذہ کا شکریہ ادا کیا اورساتھ ساتھ تمام اردو اخباروں کے مدیران کا ہدیہ تشکر پیش کیا جو بزمِ امیدِ فردا کے اعلانات اور رپورٹ کو برابر شائع کر نے جس میں کلکتہ سے شائع ہو رہے ”روزنامہ عکاس“ کا بلخصوص شکریہ ادا کیا جنہوں نے مسلسل 3 دن اپنے اخبار میں اس ویبنار کے اشتہار کو جاری کیا اور اپنی اردو دوستی کا بھر پور ثبوت پیش کیا۔ عرفان اللہ کے اعلان کے ساتھ آن لائن ویبنار اختتام پذیر ہوا۔