شخصیاتمضامین

انابھاؤساٹھے: ایک دلت مصنف اور کمیونسٹ لیڈر

(مراٹھی مصنف انابھاؤساٹھے کے101ویں یوم پیدائش پر ایک تحریر)

از: محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر

تکارام بھاؤ ساٹھے دراصل اپنی زندگی میں ہی انابھاؤ ساٹھے کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ ایک جانے مانے سماجی مصلح،Folk (لوک)شاعر، ناول نگاراور مصنف تھے۔ ان کاتعلق مہاراشٹر سے تھا۔بھاؤراؤ ساٹھے اور والوبائی ساٹھے کے مکان میں وہ یکم اگست 1920 کوپیدا ہوئے۔ وہ دلت کمیونٹی کے مانگ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔انھوں نے مل ورکر س اور انڈسٹرئیل ورکر کے لئے کام کیا۔ساتھ ہی سیاسی بیداری میں لگے رہے۔ وہ اپنی تخلیقات اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے مراٹھی میں 35 ناول لکھے،10Folkڈرامہ، 24شارٹ اسٹوریز،10پواڈاس (ballads)، 12اسکرین پلے، 24لو ک ناٹیاس، ایک Travelogue(سفرنامہ)بھی لکھا۔ان کی کئی ایک تصانیف آج بھی اشاعت کی منتظر ہیں۔

فلم اسٹوری رائٹنگ کا کام بھی کیا۔ ”سمیکت مہاراشٹر موومنٹ“ ان کی پہچان بنا۔ ان کی مشہور تصنیف ناول ”فقیرا“1959 بتائی جاتی ہے۔جس میں دلتوں کی اصلی زندگی، ان کارہن سہن، اور برٹش حکومت ہی نہیں بڑی ذات والوں کی جانب سے ہونے والے استحصال پر مبنی ناول ہے۔ فقیرا رابن ہڈ کی طرح کاکردار ہے جو انگریزوں کے گودام سے اناج لوٹ کر غریبوں میں بانٹ دیتاہے۔ وہ اپنے اصولوں پر اپنی جان قربان کردیتاہے اور جب وہ لٹرتے ہوئے مرجاتاہے تو کہتاہے کہ”میں نے ایک شاہانہ زندگی کی اور جب مررہاہوں تو ایک شیرببر کی طرح مررہاہوں“1961؁ء کو جب ”فقیرا“ نے ریاستی ایوارڈ حاصل کیا تو اس ایوارڈ کو انھوں نے امبیڈکر کے نام کردیا۔ یکم اگست 1920کو واٹے گاؤں، تعلقہ واڑوا، ضلع سانگلی (مہاراشٹر) میں پیداہونے والے انابھاؤ ساٹھے 18جولائی 1969 کو ممبئی میں انتقال کرگئے۔ساہتیہ سمراٹ، لوک شاہر، اورانابھاؤجیسے خطابات عوام کی جانب سے انہیں ملے۔

پردیپ اٹری نے 5اگست2019کے اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھاہے کہ”اگر دلت لٹریچر نے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے تو اس کاسہرا صرف ایک ہی شخص کو جاتاہے وہ ہیں انا بھاؤ ساٹھے۔دیگر دلت مصنفین انہیں ”دلت لٹریچر کے بانی“ تصور کرتے ہیں۔ دلت لٹریچر جینے کی ایک کوشش ہے۔ ذات کی بنیاد پر ہونے والے استحصال کے خلاف لڑائی ہے۔ Inequality کے خلاف بغاوت ہے۔ پست اقوام کا قدیم نظام کے خلاف اور استحصال کوروکنے کے لئے احتجاج ہے۔بے آوازوں کی آواز اور ذات پات پرمبنی معاشرے کے خلاف اٹھنے والی مؤثر آواز ہے۔ ذات پات کی تفریق کی مذمت اور ان پرحملہ آور ہونادلت لٹریچر کامرکز ی موضوع ہے۔ عموماً یہ امبیڈکر کی آئیڈیالوجی اور ان کے فلسفہ پر مبنی ہوتاہے۔“

ملنداواد Awadکاایک اہم انگریزی مضمون ایک سال قبل یکم اگست2020 کوداوایر نے اپنی انگریزی ویب سائٹ پر شائع کیاہے جو انابھاؤ ساٹھے کی زندگی کو ذات اور کلاس مخالف بتاتاہے۔ انابھاؤساٹھے نے پہلادلت ساہتیہ سمیلن (دلت لٹریری کانفرنس) 2مارچ1958 منعقدہ بنگالی اسکول آڈیٹوریم ممبئی کاافتتاح کیا۔ انھوں نے کمیونسٹ نظریات کو اختیار کیا۔ انڈو۔سوویت کلچرل سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے 1961کو سوویت یونین کادورہ بھی کیا۔ان کی تصا نیف روسی، ڈچ، پولش اور جرمن زبا نوں میں ترجمہ کی گئی ہیں۔ ان کی مراٹھی کتابیں ایموزان پر حاصل کی جاسکتی ہیں جیسے آگھات، سنگھرش، فقیرا، امرت، رانبوکا،تارا، روپا، رنگا، آگ، کھولواڑی،ناوتی وغیرہ۔ ان کی کتابوں سے کہانیاں منتخب کرکے مہاراشٹر حکومت نے شائع کیاہے۔ حکومت ہند نے بھی چارروپئے والا ڈاک ٹکٹ جاری کیاہے۔

اَرِترا بھٹاچاریہ نے انابھاؤ ساٹھے کے 2018کے یوم پیدائش پرلکھے اپنے ایک مضمون میں بتایاہے کہ ”ساٹھے کی ذات اپنی چیزوں کوپرفارم کرنے کے لئے ڈھولکی اور تن تنا(موسیقی کافولک آلہ) استعمال کرتے تھے۔آج کئی ایک آرٹسٹ ”تماشہ“ دکھانے کے لئے اس کو استعمال کرتے ہیں جو ان ہی کی ذا ت سے آتے ہیں“آگے لکھتے ہیں ”سنیما بھی ساٹھے کا ایک ذریعہ رہاہے۔ انھوں نے اپنے لٹریری کیرئیر کے دوران 12اسکرین پلے فلموں کے لئے لکھے۔ان کی کئی ایک ناولوں پر فلمیں بھی بنائی گئیں“

انابھاؤ ساٹھے نے کہاتھا ”فنکاروہ ہوتاہے جو لوگوں کے ساتھ رہتاہے اور لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں“ 1958؁ء کو مصنفین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ادب کے بارے میں انھوں نے انتہائی اہم بات کہی تھی”آرٹ تیسری آنکھ کی طرح ہے جو دنیاکو چھیدتی ہے اور تمام رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ آنکھ ہمیشہ چوکس رہنا چاہیے اور ہمیشہ عوام کے حق میں اپنی بصارت کامشاہدہ پیش کرتی رہے“
کہاجاسکتاہے کہ انابھاؤ ساٹھے کی زندگی مظلوم طبقات اورزندگی کی خوشیوں سے ناواقف عوام کے لئے وقف رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!