سماجیسیاسیمضامین

اقتدار کا نشہ اور اس کی تباہ کاریاں

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

          نشہ، چاہے وہ کسی بھی چیز کا ہو انسان اور انسانیت کے لئے سم قاتل ہے۔ نشہ کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ عقل کو ماؤف کر دیتی ہے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور پھر نشہ باز سے ایسی ایسی حرکتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جس کو وہ خود ہوش و حواس میں کسی کو کرتے دیکھے تودیکھنے پر بھی شرمندگی محسوس کرے۔ نشہ کی کوئی حد نہیں ہوتی، اس کا عادی ’ہل من مزید‘کا نعرہ ہمہ وقت بلند کئے رہتا ہے۔ جب ایک بار کسی کو اس کی لت لگ جاتی ہے تو پھر اس سے نکلنا ناممکن حد تک دشوار ہوجاتا ہے۔

          نشہ کے دو قسمیں ہیں ایک ظاہری نشہ دوسرا باطنی نشہ۔ جس طرح ظاہری نشہ خطرناک نتائج کا حامل ہوتا ہے اسی طرح باطنی نشہ بھی ہلاکت و بربادی کازینہ۔ ظاہری نشہ کے تعلق سے ہر کسی کو مکمل آگہی ہوتی ہے۔ کن کن چیزوں سے یہ نشہ حاصل کیاجاسکتا ہے اور اس کے طریقے کیاکیا ہیں، یہ کہاں مل سکتا ہے اس کی قیمت کیا ہے، ساری تفصیل ذرا سی جستجو میں مہیا ہوجاتی ہے۔ تما م اقسام کے شراب، پوست، بھانگ، دھتورا، حشیش، افیون، کوکا، تمباکو اور ڈرگزظاہری نشہ کے معلوم ذرائع ہیں۔ ان کے علاوہ موجودہ ترقی یافتہ دورمیں کچھ چیزیں ایسی بھی تیار کی جارہی ہے جن کو سونگھنے سے بھی آدمی حواس کھو بیٹھتا ہے۔ ظاہری نشہ کی تباہ کاریاں اظہر من الشمس ہیں۔ نوع انسانی کو اس کے باعث بڑی ذلت اٹھانی پڑی ہے۔جرم کی ہر کہانی کے پیچھے کہیں نہ کہیں ظاہری نشہ ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے برپا ہونے والی ہلاکتوں اور تباہیوں کی ایک لمبی روداد ہے جس کے ہر موڑ پر لہو روتی انسانت کی سسکیاں اور آہیں دلوں کو تڑپا دیتی ہیں۔ اور یہ کہانی ہنوز جاری ہے شاید روز قیامت تک جاری رہے گی۔

          لیکن جہاں تک باطنی نشہ کی بات ہے اس کے تعلق سے معاشرے میں پہلے تو مکمل آگہی نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر تھوڑی بہت جانکاری ہے بھی تو بس جزوی سی۔ کچھ کے نزدیک تو ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ نشہ کے لغوی معنی خود فراموشی، مدہوشی، مستی وغیرہ ہیں۔ ہر وہ فعل اور عمل جو انسان کو خود فراموشی سے دوچار کرے نشہ کے ذیل میں آتی ہے۔نشہ درحقیقت ایک کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کا مرکزی اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے اور انسانی دماغ اور جسم کے درمیان جوتال میل ہوتا ہے وہ ٹوٹنے لگتا ہے،دماغ میں موجود کیمیائی مادہ کو جو آگہی کے خلیات کے درمیان اشاراتی آمد ورفت کاواحد ذریعہ ہوتا ہے سست بناتا ہے،جس کی وجہ حرکات و سکنات میں سستی پیدا ہوتی ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر غنود گی طاری ہوجاتی ہے اور ساتھ ہی یاد داشت بھی متاثر ہوتی ہے۔ہر وہ چیز اور عمل جس کی وجہ سے انسانوں میں یہ کیفیت پیدا ہو، بھلے سے اس کیفیت کو لفظیات کا کیسا ہی خوشنما لبادہ پہنا دیا گیا ہو، نشہ کہلائی گی۔

          باطنی نشہ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں ہر وہ انسانی فعل اور عمل آجاتی ہے جو حد اعتدال سے گذر کر جنون کی شکل اختیار کرلیتی ہے، جس کی وجہ سے انسان ایک ذہنی خود فراموشی اور مد ہوشی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ حق اور باطل میں امتیاز نہیں کرپاتا۔ اس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔بس ایک معمول کی طرح وہی کرتا ہے جو اس سے کہا جاتا ہے یا جو اس کے اطراف والے کرر ہے ہوتے ہیں۔ ظاہری نشہ کی طرح باطنی نشہ سے بھی انسانی سماج روز ازل سے بد ترین مشکلات اور مصائب کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اس میں مبتلا افراد انسانیت کے لئے ایسے ناسور ہوتے ہیں جن کو نہ ساتھ رکھا جاسکتا ہے نہ کاٹ کر پھینکا جاسکتا ہے۔ باطنی نشہ کے کئی اقسام ہیں جیسے عشق و جنون کا نشہ، دولت کا نشہ، خاندان و قبیلہ کا نشہ، نسبت کا نشہ، علم کا نشہ، خوبصورتی اور وجاہت کا نشہ، کسی ہنر کا نشہ، تندرستی کا نشہ، مذہب کا نشہ، اقتدار کا نشہ وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سب سے خطرناک اقتدار کا نشہ ہے اور جب اس کے ساتھ مذہب کا تڑکا بھی لگ جاتا ہے وہ تلوار دو آتشہ کی طرح خطرناک ہی نہیں خوفناک بھی ہوجاتا ہے۔

          دنیا میں اب تک جتنی بھی تباہیاں انسانوں نے برپا کی ہیں وہ سب اسی اقتدار کے نشے میں مبتلا ہوکر کی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری جنگ عظیم یا ہزاروں سال قبل کی رومیوں اور ساسانیوں کی جنگیں،سکندر کادنیا فتح کرنے جنون، بنی اسرائیل پر مصریوں کا جو رو ستم، بخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی، تاریک دور میں لڑی جانے والی یورپی قبائل کی آپسی جنگیں،صلیب کے نام پر صلیبی جنگیں، مشرق وسطیٰ پر چنگیز اور ہلاکو کے یلغاریا ماضی قریب میں فلسطین، عراق،شام،لبیا اور افغانستان کی تباہی سب اقتدار کے نشے میں مبتلا افرادکی شیطانیت کا نتیجہ ہے۔ انسانی خون کی ارزانی جتنی اس نشہ میں مبتلا افراد کے ہاتھوں ہوئی وہ شاید ہی کسی اور وجہ سے ہوئی ہو۔

          اسلام ایک اعتدال والا دین ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سنتوں میں سب سے اہم سنت ہر حال میں میانہ روی رہی ہے۔ مکہ مکرمہ میں قریش کے جور وستم والا دور ہو یا مدینہ منورہ اور فتح مکہ کے بعد کا فاتحانہ دور آپ ﷺ نے کبھی اعتدال والا راستہ ترک نہیں کیا۔ اسلام کی یہی سب سے بڑی خوبی اور شان بھی ہے۔ لیکن افسوس خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد اہلیان ملوکیت نے اقتدار کے نشے میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے ایسے ایسے ظلم و ستم برپا کئے کہ اس کے تذکرے سے بھی دل ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگتا ہے۔ خلیفہ راشد حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے خلاف بغاوت اور پھر ان کی مظلومانہ شہادت،پھر اس کے فوراً بعد خانوادہ ء رسول پر بے آب و گیاہ میدان میں جور و ستم اور کار زار برپا کرنے کا بدترین فعل اور اس کے نتیجے میں امام حسینؓ اور ان کے رفقاء کی شہادت، یہ سب اقتدار کے نشے کی ہی کارستانیاں ہیں جن پر تاریخ آج بھی خون کے آنسو رو رہی ہے۔ چودہ سو سالہ مسلم تاریخ میں اقتدار کے نشے نے ملوکیت کے لبادے میں کیا کیا گل کھلائے اور اسلام کی اعتدال پسندی کی تعلیمات پر کس طرح شب خون مارا اس سے شاید ہی تاریخ کا کوئی طالب علم ناواقف ہو۔ موجودہ دور میں بھی اسلام کے خلاف سب سے بڑامحاذ اگر کسی نے کھول رکھا ہے تو وہ اقتدار کے نشہ میں چور لو گ ہی ہیں۔

          اقتدار کا نشہ جب کسی نیم مذہبی اور نیم سیاسی گروہ کے منہ کو لگتا ہے تو معاشرے پر اس کے اثرات اور بھی خطرناک ہوجاتے ہیں۔وطن عزیز میں آج کل جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی کی ایک مثال ہے۔ اقلیتوں اور کمزور طبقے پر روز بروز بڑھتے ہوئے مظالم، ہجومی تشدد کے ذریعے ان کا بیہمانہ قتل، فساد اور شر انگیزی کے ذریعے ان کے ذریعہ معاش کو تباہ و برباد کرنے کا قبیح عمل، حکومتی سطح پر نت نئے قوانین بنوا کر انہیں خوف اور دہشت میں مبتلا کرکے حظ اُٹھانے کی چاہ، غلط مقدموں میں پھنسا کر برسوں ان کے جوانوں کو قید وبند میں مبتلا رکھنا تاکہ وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھا سکیں اور اسی قسم کے اوربھی کئی حرکات جس سے دہشت پیدا ہو، اقتدار کے نشہ میں مبتلا افراد کا اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے  کے لئے برپا کیا گیا لائحہ عمل ہے۔

          ایسا نہیں ہے کہ یہ شر وطن عزیز میں صرف برادارانِ وطن کے برسر اقتدار طبقے میں پایا جاتا ہے بلکہ ہمارے درمیان بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ ہمارے سماجی، تعلیمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی اداروں میں حتیٰ کہ مسجدوں میں بھی یہ اقتدار کا نشہ ہی ہے جو ہر آئے دن خلفشار برپا کئے رہتا ہے۔ مسلک کے نام پر، ذات پات اور نسل کے نام پر، مکتبہء فکر کے نام پر گر وہ بندیاں کر کے کے جتنے جھگڑے اور فساد ہم میں ہوتے ہیں جو ہمارے نام پر ایک بد نما داغ ہیں سب اسی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ اقتدار کا نشہ ہی ہے جو ہمارے اداروں کو اپنے نصب العین سے ہٹا کر تباہی اور بربادی کے راہوں پر دھکیل رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے ایک ایسے دین کے نام لیوا ہوتے ہوئے جس میں کسی بھی قسم کے نشے میں مبتلا ہوکربندگی کے نام پربھی اللہ کے قریب آنے سے یعنی اس کے نام لینے سے منع کیا گیا ہے، (یا ایھا الذین امنو لا تقربو ا الصلوۃ و انتم سکاری – النساء 43) ہم ڈھرلے سے اس نشہ کے عادی ہو کر دنیا کے سامنے اپنی ایک ایسی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں جس کا انجام دونوں جہاں میں سوائے بدترین تباہی کے کچھ نہیں ہے۔

          کیا ہی اچھا ہو، اگر ہم ا س برائی کے خلاف منصوبہ بندی کے ساتھ کمربستہ ہو ں اور معاشرے سے اس کومکمل ختم کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ بحیثیت داعی ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس تباہ کن برائی کے شر سے دنیاکو آگاہ کریں، خود بھی اس سے بچیں اور ممکن حد تک دوسروں کو بھی اس سے بچائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!