تعلیمیمضامین

معلم: معمارِ انسانیت

از: ناظرہ بیگم٭

انسان کا انسان سے ہو بھائی چارہ
یہی پیغام ہمارا یہی پیغام ہمارا

معلم وہ حیثیت ہے جس نے انسان کو انسان بنایا ۔انسان کو انسان بنانے کا مطلب انسان میں انسانیت پیدا کرنا ہے۔ جانور اور انسان کو اگر کوئی بات ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے تو وہ ہے انسانیت۔۔۔۔۔اس میں پنپتی ہے ۔پلتی ہیے۔پھولتی ہے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا تھا ۔ نسل کو سنوارنا اور ان کو ملک اور انسانیت کے قابل بنانا معلم کا کام ہے ہے ‌۔انسانیت کی تعمیر میں معلم کا کردار بنیادی ہے۔

ہر مذہب میں معلم کو نمایاں مقام حاصل ہے کیونکہ ماں کے بعد وہی ہے جو انسانیت کو بناتا ہے ہر مذہب میں معلم کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس سے بڑھ کر اسلام میں معلم کو بلند مقام حاصل ہے۔ گرو، استاد، ٹیچر ،سر، سردار، مولوی صاحب، معلم ،سر ، سردار، باس، مولانا، اس میں سے آپ کچھ بھی کہہ لیجئے لئے معلم کا کردار نہیں بدلتا اس کا کام نہیں بدلتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے معلم بنا کر اس جہاں میں بھیجا

معلم کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے انسان کی ترقی میں ایک معلم بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جو کہ اپنے علم کے ذریعے عقل کو روشن کرنے کا ہنر سکھاتے آئے ہیں۔ اساتذہ انسانیت کے معمار ہیں۔ اور نونہالوں کی سیرت کو سنوارنے انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور ان کی کردار سازی میں اہم ترین فریضہ سرانجام دیتے آئے ہیں۔

اپنی انتھک محنت سے نوجوانوں کو محقق ، ڈاکٹر ،انجینئر ، سائنسدان، سیاست دان، اور انسانیت سے انسان بناتے آئے ہیں۔ اساتذہ انسان کو رب رحمن سے آشنا کرتے دنیا میں انسانیت سے محبت امن اور اخوت، کا پرچار کرتے اور جہالت کے اندھیرے کو علم کی روشنی سے ختم اور علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن و منور کرتے چلے آئے ہیں۔

بچوں کا واسطہ سب سے پہلے اپنی ماں سے ہوتا ہے اور اس کے بعد ٹیچر سے ،ٹیچر اس چھوٹے سے بچے کے چھوٹے سے دل میں انسانیت اور تہذیب بھرنا شروع کر دیتا ہے تہذیب کے ساتھ انسانیت اور انسانیت کے ساتھ تہذیب دھیرے دھیریے اس کے دل میں ایک بیج کے موافق ڈال دی جاتی ہے۔اگر وہ بیج اس کے دل میں پودا بن کر ابھرا تو وہ انسان بن جاتا ہے اور اگر وہ بیج پودا نہیں بن سکا تو بس وہ ایک آدمی بن کر رہ جاتا ہے ۔انسان کے دل میں بنا پودا ٹیچر کے لگاتار پانی دینے کھاد دینے اور اس کی حفاظت عزت کرنے سے ایک دن ایک بڑے پیڑ کی‌ شکل میں ڈھل جاتا ہے ہے جس کی دل میں میں گیا وہیں ایک ایک عظیم انسان بن جاتا ہے

دنیا میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ ابراہیم لنکن مہاتما گاندھی نیلسن منڈیلا ڈا کٹر سلیم علی اور اور نہ جانے کئ ان سب کے دل میں انسانیت کا بیج پودا بنا، پیر بنا ،اور یہ لوگ انسانیت کی مثال بن گئے۔ انسانیت سے روبرو کرنے والی یہ ایک سچی کہانی فلیمنگ کی ہے۔

بات سن 1887 کی ہے اسکاٹ لینڈ میں ایک کسان فلیمنگ رہتا تھا اس کا نام فلیمنگ تھا ایک دن جب وہ کھیت میں کام کر رہا تھا تب اس نے اپنے پیچھے کچھ آوازیں سنی اس نے پلٹ کر دیکھا یہ کیا۔؟ ایک بچہ دلدل میں پھنسا ہوا تھا اور پوری طرح ڈوب سا گیا تھا ۔ یا یوں سمجھۓ کے اب مرنے ہی والا تھا فلیمنگ دوڑ کر گیا اور اس بچے کو بچالیا۔اسےباہر نکالا کیا کیچڑ صاف کیااور نہلانے کے بعد بچے کو گھر جانے کے لئے کہا اور بچہ چلا گیا۔اگلے دن فلیمنگ کے جھونپڑے کے سامنے ایک بڑی اور قیمتی کار آکر رکی کار میں سے ایک امیر آدمی باہر آیا اس آدمی کا نام روڈولف چرچل تھا وہ اس وقت کا امیر آدمی تھا۔

اس نے فلیمنگ سے کہا آپ نے کل میرے بیٹے کی جان بچائی ہے اس کے بدلے میں آپ کو کچھ دینا چاہتا ہوں آپ کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں فلیمنگ نے ہاتھ جوڑ کر کہا ایسا نہ کہے میں نے صرف انسانیت کے ناطے وہ کام کیا تھا۔اس میں روپیہ پیسہ اور لین دین کی بات نہیں آنا چاہیے امیر آدمی نے کافی ضد کی لیکن فلیمنگ نے کچھ بھی لینے سے منع کر دیا اتنے میں جھونپڑی میں سے ایک بچہ باہر آیا اسے دیکھ کر روڈولف چرچل نے فلیمنگ سے پوچھا کہ یہ آپ کا بیٹا ہے فلیمنگ نےسر ہلاتے ہوئے کہا ہاں یہ میرا بیٹا ہے تب روڈ ولف چرچل نے فلیمنگ سے التجا کی اور کہا اور کچھ لے نہیں رہے لیکن مجھے اتنا کرنے دیجئے کہ میرا بیٹا جہاں پڑھےگا وہی اسکول میں آپ کا بیٹا بھی پڑھے گا اس کی پڑھائی کا پورا خرچ میں اٹھاؤں گا۔فلیمنگ نے اس کی بات مان لیں۔

روڈولف چرچل اس بچے کو اپنے ساتھ لے گئے اپنے بیٹے کے ساتھ اسے بھی پڑھایا ۔ فلیمنگ کا یہ بیٹا آگے چل کر لندن کے مشہور سینٹ میری میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور یہی لڑکا آگے چل کر کر الیگزینڈر فلیمنگ کے نام سے مشہور ہوا۔

1928ء میں الیگزینڈر فلیمنگ نے سب سے پہلے پنسلیں ایجاد کی ۔ یہ دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک دوا تھی کہانی آگے بڑھتی ہے ہے بیٹا جو دلدل میں پھنس کر بچا تھا جس کے ساتھ الیگزینڈر فلیمنگ نے پڑھائی کی تھی اسے نمونیا ہو گیا۔ وہ مرنے کے قریب تھا تب الیگزینڈر فلیمنگ کے ایجاد کئے ہوئے انجکشن سے اس کی جان بچ گئی اور یہی لڑکا کا ونسٹن چرچل کے نام سے مشہور ہوا۔ اور دو مرتبہ صدر برطانیہ کے کے عہدے پر فائز ہوا ۔یاد رکھیے بھلائی اور انسانیت لوٹ کر آتی ہے۔

الیگزینڈر فلیمنگ کو 1945ء میں نوبل پرائز ملا۔لوگوں نے انھیں اپنے دور کا پیٹنٹ کرانے کو کہا۔جس سے وہ لاکھوں کروڑوں روپے کما سکتا تھا لیکن الیگزینڈر فلیمنگ نے اسے ساری دنیا کے لیے مفت یعنی فری کردیا اسی پنسلین نے دوسری عالمی جنگ میں تیس لاکھ لوگوں کی جان بچائی اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسانیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

جو کام ایک ٹیچر کرسکتا ہے وہ کوئی اور نہیں کرسکتا کیونکہ معلم ایک رہبر ہے، دوست ہے، استاد ہے، بھائی ہے، ماں اور باپ ہے، اتنے سارے کردار لے کر چلنے والا معلم اپنے شاگرد کو کسی بھی کردار میں مل جاتا ہے اور کسی بھی طرح اس کی ناؤ کو کنارے لگاتا ہے۔

انسان کبھی برا نہیں ہوتا وقت اور حالات اسے برا بناتے ہیں۔ اور جس نے اپنے معلم کی بات مانی اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلا وہ کبھی بھی برا نہیں بن سکتا وہ انسانیت کا پہرہ دار بن جاتا ہے ۔انسانیت کا پرچم ہاتھ میں لیے وہ دنیا کو پیار محبت اور بھائی چارے کا سبق پڑھاتا رہتا ہے۔انسانیت کے لیے کوئی کام کرے اور وہ صرف بڑا کام ہو ایسا نہیں ہو سکتا آپ چھوٹے چھوٹے کام کرکے بھی انسانیت کے پائہ کو مضبوط بناسکتے ہیں۔ کسی بوڑھے اندھے کو راستہ پارکرانا ہو یا بس میں کسی کو اپنی سیٹ دینا ہو یا کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو اس طرح کے کام آپ کو ایک اچھا انسان بنا سکتے ہیں اور انسانیت زندہ رہتی ہے۔

آج جب ساری دنیا دنگے فسادات، نفرت، جرم اور ظلم کے گرد میں ڈوبی ہوئی ہے تب اسے تبدیل کرنا اس کو ان سے باہر نکالنا ہو تو انسانیت ہی ایک واحد ذریعہ ہے۔ آج انسانیت ختم ہونے کو ہے چلو ہم سب معلم و اساتذہ ساتھ مل کر انسانیت کا چراغ جلائیں اور ساری دنیا کو اس سے روشناس کریں۔

(خصوصی مضمون بموقع ائیٹا کرناٹک مہم برائے اساتذہ "معلم معمار جہاں تو ہے” 10/ جولائی تا 17 /جولائی 2021ء)
٭(مضمون نگار سرکاری اردو ہائیر پرائمری اسکول ینکور تعلقہ بھالکی کی میر معلمہ ہیں)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!