معلم کی شخصیت اور اوصاف: سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں
از: شاہین فاطمہ معلمہ (آئیٹا بیدر)
طلباء کی تعلیم و تربیت میں معلم کی اپنی شخصیت اور اس کی ذاتی اوصاف کا رول سب سے اہم ہوتا ہے۔ طلباء شعوری یا غیر شعوری طور پر ان سے برابر متاثر ہوتے رہتے ہیں اور استاد اور طلباء کا یہ تاثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ زندگی بھر نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کہ مندرجہ ذیل چند پہلوؤں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ ہر معلم ان کی روشنی میں اپنی شخصیت کو ڈھال سکے اور اپنا قابل تقلید اسوہ طلباء کے سامنے پیش کر سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت بڑی دلکش اور موث تھی جو دیکھتا بے اختیار کھینچتا اپنی جان چھڑکتا۔
معلم کو بھی اپنے اندر ان اوصاف کی جھلک لانی چاہیے تاکہ طلباء اس سے بدکنے کے بجائے قریب آئیں توجہ اور دلچسپی سے بات سنیں اور معلم کا اثر قبول کریں۔ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ قابل تقلید، پوری زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب، ظاہر اور باطن یکساں تھا جن باتوں کی تعلیم دی خود اس پر عمل کیا زبان سے جو کچھ فرمایا اس پر عمل کرکے دکھایا۔ طلباء بھی معلم کے باتوں سے زیادہ اس کے اسوہ کی تقلید کرتے ہیں اس لیے معلم کو بھی اپنی سیرت کے تمام پہلوؤں پر برابر نظر رکھنی چاہیے تاکہ طلباء کو تقلید کے لیے اچھا اسوہ ملے ورنہ اپنی کوتاہیوں کا وبال تو ہوگا ہی غلط اسوے کا جو طلباء پر اثر ہوگا اس کا وبال بھی معلم پر ہوگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی علم و حکمت کی حامل تھی۔ معلم کو بھی صاحب علم و حکمت ہونا چاہیے کیونکہ صحیح اور پختہ علم کے بغیر طلباء کو اچھی تعلیم نہیں دی جاسکتی اور حکمت کے بغیر سلیقےسے ان کی تربیت نہیں کی جاسکتی۔ معلم کو اپنے علم میں اضافے اور پختگی نیز اپنی معلومات پر بھروسہ اور یقین پیدا کرنے کی برابر جدوجہد کرتے رہنا چاہیے علم کے معاملے میں طلباء اپنے معلمین کو سند سمجھتے ہیں۔
عفو و درگزر اور تحمل و بردباری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مثال آپ تھے۔ معلم کو بھی نادان بچوں سے سابقہ پیش آتا ہے جن سے ہما وقت غلطیاں اور کوتاہیاں اور خلاف طبع حرکات سرزد ہونے کا امکان ہوتا ہے اس لئے وہی معلم کامیاب ہوتا ہے جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں۔
چڑچڑے اور غصہ والے لوگ کبھی اچھے معلم نہیں ہوسکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی اور ملنساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے پرائے دوست دشمن یہاں تک کہ جنہیں ا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے تھے نہایت نرمی اور خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ معلم کو بھی بہت ہی خوش اخلاق، ملنسار اور خوش تباہ ہونا چاہیے۔ اسے بھی طلباء، ان کے سرپرستوں عام لوگ، مدرسہ کے موافق مخالف ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور ہر ایک کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے بغیر ان صفات کے وہ اپنا فرض انجام نہیں دے سکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لباس میں سادگی، تواڞع اور پاکی و صفائی کا حد درجہ خیال رکھتے تھے۔ معلم کو بھی فیشن اور نقالی سے پرہیز کرنا چاہئے سادگی اور صفائی میں معلم کی شان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں غیرمعمولی نظم و ضبط اور اور برتاؤ میں حد درجہ یکسانی و ہمواری تھی معلم میں بھی یہ صفات ضروری ہے تاکہ طلباء اس کے جذبات کا پورا احترام کر سکیں ورنہ باوجود خواہش وہ عجب کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ معلم کس بات سے خوش ہوگا اور کس سے ناخوش۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احساس ذمہ داری، لگن اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے” شاید آپ اپنے آپ کو ان کے پیچھے ہلاک کردیں گے” ۔ معلم کو بھی اپنے اندر احساس ذمہ داری،لگن جیسے صفات کو اجاگر کرنا ہے کیوں کہ ان صفات کے بغیر تعلیم و تربیت کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔
صورتحال کیسی بھی پیچیدہ ہو معاملات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دور اندیشی اور سہولت سے سلجھا دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند جملے آگ پر پانی کا کام کرتے اور ہر فریق مطمئن ہو جاتا۔، معلم کو بھی آئے دن درجات میں اور باہر بھی طرح طرح کے معاملات سے دوچار ہونا پڑتا ہے اگر نیپٹنے کی صلاحیت نہ ہو تو معلم کو بڑی دشواری پیش آئے گی۔
بچوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر معمولی انس اور اور طبعی مناسبت تھی ان کی بچگانا حرکات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ رعایت کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی بچے کو نہیں پیٹا اور مارنے کے لیے کہا بھی ہے تو آخری چارہ کار کے طور پر۔ معلم کو بھی اپنے اندر ان صفات کو پروان چڑھانا چاہیے دیگر تمام امور کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میں بھی تکلف وہ تصنع بالکل نہ تھا۔ معلم کو بھی اپنی آواز میں بے ساختہ پن اور بے تکلفی بر قرار رکھنی چاہیے۔ انداز فطری ہونا چاہیے بناوٹی نہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی صاف، سادہ اور عام فہم و سلیس زبان کا استعمال فرماتے مرصع اور مسجع عبارت بولنے اور پر تکلف زبان استعمال کرنے سے گریز کرتے ایسی زبان میں بیان فرماتے کہ ان پڑھ اور معمولی صلاحیت کے لوگ بھی بخوبی سمجھ لےتے۔ معلم کو چھوٹے بچوں سے سابقہ پیش آتا ہے جن کا ذخیرہ الفاظ بہت محدود ہوتا ہے اگر بولنے میں اس کی رعایت نہ کی جائے تو بچے سمجھ ہی نہ سکیں گے۔
ہم تمام معلمین کو اسوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں مندرجہ بالا اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنا ہے اور اپنے شاگردوں کی بہترین تعلیم و تربیت کرنا ہے تاکہ ایک بہترین معاشرہ تشکیل پائے اور تمام معلمین و معلمات ایک مثالی معلم بن کر ابھریں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔
؎
قوم ایک گلشن ہے جس کا باغباں استاد
اسی کے دم سے ہے یہ چمن رنگین آباد
اہ اتنا بھی نہ سمجھے یہ نو نہالان چمن
گر باغبان ہوا برباد تو گلستان برباد