تعلیمی نظام ‘وینٹی لیٹر’ پر… توجہ کی ‘آکسیجن’ کا محتاج’!
عبدالرحمٰن ناندیڑ
روٹی, کپڑا, مکان, صحت اور تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں. ان میں سے اول الذکر چار بنیادی ضروریات ہونے کے ساتھ ساتھ ہنگامی ضروریات (Emergjency Needs) میں بھی شمار ہوتی ہیں کیونکہ ان اشیاء کی انسان کو مستقل اور مسلسل حاجت ہوتی ہے. انسان طویل عرصہ تک بھوکا رہے تو تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے. تن ڈھانکنے کے لئے انسان کو ہمیشہ لباس درکار ہے, شرم و حیا کے نقطہ نظر سے بھی اور موسمی سختیوں سے بچاؤ کے لئے بھی.سکون و آرام کی خاطر انسان کو مکان کی ضرورت ہوتی ہے. مکان کے بغیر انسان رہ نہیں سکتا. اسی طرح صحت اور علاج معالجہ بھی انسان کے لئے ہنگامی ضرورت میں شامل ہے. اگر انسان کو بروقت علاج نہ مل پائے تو وہ ہلاک ہوجائے گا. تاہم آخر الذکر شئے یعنی تعلیم گوکہ بنیادی ضروریات میں شامل ہے لیکن ہنگامی ضروریات میں جگہ نہ پاسکی. خدمت خلق کے جتنے کام ہوتے ہیں وہ انہی چار ضروریات کی ضرورت مندوں کو فراہمی کے لئے ہوتے ہیں.
ارضی و سماوی آفات کے مواقع پر بھی جو ریلیف کا کام کیا جاتا ہے اس میں متاثرین کو غذا, لباس, رہائش اور علاج معالجہ دستیاب کرانے پر ہی زور دیا جاتا ہے. تعلیم و تربیت کے حوالے سے عموماً کوئی ریلیف کی سرگرمی انجام نہیں دی جاتی. اور ایک حد تک یہ حقیقت بھی ہے کہ عام دنوں میں تعلیم ایک ہنگامی ضرورت نہیں ہے. کسی مضمون کے کچھ پیریڈ نہ ہونے پر طلبہ جاہل نہیں ہوجاتے. گھر میں شادی کی تقریب یا غم و حادثہ کے سبب ایک طالب علم کئی روز تک اسکول سے غیر حاضر ہوتا ہے یا چھٹی لے لیتا ہے تو اس کی تعلیم کا نقصان عظیم نہیں ہوتا. بعد میں وہ اس کی تلافی کرلیتا ہے. لیکن جب تعلیم کا سلسلہ مسلسل منقطع ہو اور ہر جگہ تعلیم و تربیت کا کام بند ہوچکا ہو تو پھر اس کا جو نقصان ہوتا ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا. اب بھلے ہی انسان کو روٹی, کپڑا, مکان اورعلاج معالجہ کی سہولیات میسر آجائیں لیکن تعلیم سے محرومی کا خمیازہ سارے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے.
موجودہ کورونا وبا نے دنیا بھر کے انسانوں کو جن مشکلات سے دوچار کیا اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی. اس وبا نے انسان کی معیشت,معاشرت, تعلیم غرض ہر شعبہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے. لیکن جو نقصان تعلیم کے شعبے کو ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے. ڈیڑھ سال سے طلبہ اسکولوں سے دور ہیں.
کورونا وبا کے دوران مسلم تنظیموں و اداروں کے ساتھ ساتھ اہل ثروت افراد نے ہندوستانی مسلمانوں میں ریلیف کے کام جس عظیم پیمانے پرانجام دئے اس کی نظیر نہیں ملتی. ہر گاؤں, قصبہ اور شہر میں یہ فلاحی کام کئے گئے.اس بات کی بھرپور کوشش کی گئی کہ لاک ڈاؤن کے سبب بےروزگاری سے کوئی مسلم فیملی اور فرد بھوکا نہ رہنے پائے.رمضان اور غیر رمضان میں گھر گھر راشن پہنچایا گیا.عید کےلئے نئے کپڑے تقسیم کئے گئے. بے آسرا لوگوں کو رہنے کے لیے چھت فراہم کی گئی. طبی شعبہ میں بھی زبردست خدمات انجام دی گئیں. اس سلسلے میں مسلم ڈاکٹرز اور طب سے جڑے افراد کا جذبہ قابل صد ستائش تھا. غرض روٹی, کپڑا, مکان اور صحت سے جڑی ہر قسم کی امداد انفرادی اور اجتماعی طور پر مہیا کی گئی. لیکن تعلیم کا شعبہ توجہ پانے میں ناکام ہی رہا. سبب وہی رہا کہ تعلیم کو ہنگامی ضرورت نہیں سمجھا گیا.
تعلیم کے اس مسئلہ کو حل کرنے کی اولین ذمہ داری سب سے پہلے اسی طبقہ پر عائد ہوتی ہے جو اس مسئلہ کا سب سے زیادہ شعور رکھتا ہے یعنی طبقہ اساتذہ. اس وقت ملک بھر میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی سطح تک کے اساتذہ کی بے شمار نمائندہ تنظیمیں ہیں جو سال بھر ان کے ‘حقوق’کے لئے جدوجہد کرتی رہتی ہیں. ‘آل انڈیا آئیڈیل ٹیچرز ایسوسی ایشن’ کل ہند سطح کی ایک ایسی واحد اساتذہ تنظیم ہے جس کی فہرست ترجیحات میں حقوق پر فرائض کومقدم رکھا گیا ہے. یہ تنظیم اساتذہ کو ان کے حقوق دلانے سے زیادہ ان کو اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے. موجودہ ہنگامی حالات میں سب سے زیادہ متاثر تعلیم کے شعبہ کو بچانے کے لئے ایسی ہی تنظیم سے توقع کی جاسکتی تھی. اور الحمدللہ اس تنظیم نے اس توقع پر پورا اترنے کا فیصلہ کرلیا ہے. آئیٹا کی جانب سے 15 جون سے ملک گیر سطح پر ‘تعلیم ہماری ہر حال میں جاری’ عنوان کے تحت ایک مہم کا اہتمام کیا جارہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ غیرمعمولی صورت حال میں جب کہ اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہیں, طلبہ کی تعلیم کو موثر انداز میں جاری رکھنے کے لئے متبادل ذرائع دستیاب کرائے جائیں اور ہر وہ تدبیر اپنائی جائے جس سے طلبہ تعلیمی نقصان سے بچ جائیں. اس مہم کے تحت مختلف سطحوں پر مختلف سرگرمیاں انجام دی جائیں گی. کوشش کی جائے گی کہ معاشرہ کے تمام افراد کو اس مہم سے جوڑا جائے.
پہلے زمانے میں تعلیم دوطرفہ عمل ہوا کرتا تھا. ابتدائی سطح پر بچوں کو گھر میں ہی تعلیم دی جاتی تھی. دس بارہ سال کی عمر کے بعد اسے معلم کے حوالے کیا جاتا تھا. یہاں بھی تعلیمی عمل دوطرفہ ہی ہوا کرتا تھا جس میں والدین یا سرپرستوں کی دخل اندازی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی. آگے چل کر یہ عمل سہ رخہ ہوگیا جس میں والدین کا بھی اہم رول ہوتا ہے. اس عمل کو ‘تعلیم کا مثلث’ نام دیا گیا. جدید زمانے میں یہ عمل مثلث نہیں رہا بلکہ’مسدس’ بن چکا ہے جس میں طالب علم, معلم اور سرپرستوں کے ساتھ ساتھ معاشرہ, انتظامیہ اور حکومت بھی شامل ہوگئے. بات اگر مسلمانوں کی تعلیم کی کی جائے تو یہاں حکومت اور انتظامیہ سے زیادہ معاشرے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے. چنانچہ آئیٹا جو مہم منارہی ہے اس میں ‘تعلیمی مسدس’ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا شریک ہونا ضروری ہے.
مسلمانوں کی تعلیم سے حکومت اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی کے سبب اب طلبہ, معلمین اور سرپرستوں کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئیٹا کی اس مہم میں پوری متانت و سنجیدگی اور سرگرمی کے ساتھ شامل ہوجائیں اور مہم کو کامیاب بنانے کے لئے حتی المقدور کوشش کریں. کیونکہ اس وقت امت کا تعلیمی نظام ‘وینٹلیٹر’ پر ہے اور ہماری توجہ کے ‘آکسیجن’ کا محتاج ہے. وبا آج نہیں تو کل ختم ہوجائے گی. مرنے والوں کا غم ہلکا ہوجائے گا. معاشی نقصانات کی بھی تلافی ہوجائے گی لیکن اس وبا نے ہمارے تعلیمی نظام کو جو زخم دیا ہے اسے وقت کا مرہم بھی مندمل نہیں کر سکتا. کورونا وبا نے تعلیم و تعلم کے سلسلے کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اس کے ازالے کیلئے جدوجہد کریں. آئیے عزم کریں کہ ہم سب آئیٹا کی اس مہم کا سرگرم حصہ بن جائیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کریں.