خوبیوں کے مرقع مولانا سید مصباح الحسن ہاشمی، جو ہم سے بچھڑ گئے…
ابو عمار محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی، گلبرگہ
گلبرگہ و حیدرآباد بلکہ علاقہ دکن کی مشہور و معروف ہر دل عزیز شخصیت ممتاز عالم دین،ثناء خوان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مشفق و مربی استاد،رہبر و رہنماء اور بہترین بہی خواہ،مخلص و ہمدرد و رفیق،مصباح الملت حضرت مولانا سید مصباح الحسن ہاشمی نوراللہ مرقدہ ناظم دارالعلوم سکندریہ،خطیب و امام مسجد سکندریہ گلبرگہ وجنرل سکریٹری جمعیت علماء گلبرگہ سے میری ملاقات،وابستگی اورانسیت تقریبا گذشتہ دو دہوں سے ہے،مولانا سے مجھے ذاتی معاملات میں بھی مشورہ اور میری پریشانیوں میں دعائیں ہمیشہ ملتی رہی ہیں،مولانا کے وصال کے بعد بھی حضرت سے ہماری انسیت اور روحانی نسبت ہمیشہ رہے گی،مولاناسے ہماری وابستگی باعث فخرہے۔جب میری ملازمت وقف بورڈ میں تھی تب تقریبا ہر جمعہ مسجد سکندریہ میں نماز ہوتی نماز کے بعد مولانا مرحوم سے خوشگوارملاقات ہوتی پھر اکثر ظہرانہ کا بھی انتظام فرمادیتے مولانا کی ضیافت بھی قابل تقلید ہے اس کے علاوہ بھی وقفہ وقفہ سے مولانا سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں،اکثر فون کرنے پر بھی بڑی بشاشت کے ساتھ گفتگو فرماتے،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے فون کیا اور حضرت نے بات نہ کی ہو،کبھی کبھی خود بھی فون کرکے خیریت پوچھتے اور دعاوں سے نوازتے.
وصال سے قبل 19اپریل کو میں نے حضرت کو فون کیا اور کہا کہ مولانا رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے اپنی دعاوں میں مجھے بھی شامل رکھئے تو مولانا نے بڑی مسرت کا اظہار کیا اور دعاوں سے نوازنے کے بعد فرمایا کہ دھوپ میں درس قرآن کے لئے جانا ہوا اس لئے طبیعت کچھ ناساز ہے تو میں نے کہا مولانا صحت کا خیال رکھئے اور دھوپ سے بچنے کی کوشش کریئے پھر میں نے ایک مرتبہ پھر دعاوں کی درخواست کے ساتھ آرام کرنے کے لئے کہہ کر کال ختم کی اس کے بعد مولانا سے نہ رابطہ ہوا نہ ہی مولانا کی طبعیت خراب ہونے کی کوئی اطلاع ملی،میری مولانا سے بات ہونے کے ٹھیک 10ویں دن 29اپریل کو حضرت مولانا کے سانحہ ارتحال کی غمناک،المناک اور روح فرساء خبر ملی اور دل ہیکہ آج تک یقین و بے یقینی کی کیفیت میں الجھا ہوا ہے،آج بھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ مولانا نے اتنی جلدی داغ مفارقت دے دیا۔
مجھے مولانا سے خاص تعلق و لگاو تھا جمعیت کے تحت کچھ طویل سفر بھی مولانا کے ساتھ ہوئے ہیں،جمعیت کی مرکزی میٹنگ کے لئے بھی مولانا کے ساتھ دہلی کے سفر ہوئے،سفر میں ہوں یا حضر میں مولانا کو میں نے ہمیشہ مثالی کردار میں ہی پایا ہے،اس کے علاوہ میں نے مولانا کو جب بھی مدعو کیاچاہے وہ بڑی تقریب ہو یا چھوٹی مولانا نے کبھی انکار نہیں کیا اور ہر مرتبہ بہ نفس نفیس تشریف لاکر دعاوں سے نوازا،اس کے علاوہ بھی مختلف ایسے مواقع آتے رہے ہیں جب مولاناکی صحبت کاشرف حاصل ہوتارہاہے۔مولانا کی سرپرستی اوران سے والہانہ تعلق حاصل رہاہے۔ حضرت مولانا کی مجھ سے محبت وانسیت میرے لئے اعزاز ہے اور اللہ کا انعام بھی ہے، کچھ سال قبل میری طبیعت خراب ہو گئی اور مجھے اسٹار ہاسپٹل بنجارہ ہلز حیدرآباد میں شریک کیا گیا تھا اطلاع ملتے ہی حضرت مولانا بے چین ہو گئے اور مفکر ملت حضرت مولانا شریف مظہری صاحب دامت بر کاتہم کے ہمراہ حیدرآباد ہسپتال آکر میری عیادت کی اور دعائیں دم کیں اور اس کے بعد گلبرگہ واپس آکر دونوں ہی حضرات علماء اکرام نے میری صحت کے لئے نہ خوددعا ئیں کیں بلکہ طلباء سے بھی کروائیں اور میرے واپس آنے پر والہانہ مسرت سے ملاقات کی.
ڈھائی سال قبل میرے فرزند جب ہسپتال میں شریک تھے دونوں حضرات علماء اکرام نے مجھے اپنے اہل خانہ کے بعد سب سے زیادہ تسلی اور دعائیں دیں میری ہر خوشی وپریشانی کے موقع پر مولانا کی دعائیں اوردلاسے بھی نعمت سے کم نہیں،میرے فرزند کے دواخانہ میں شریک رہنے کے دوران کیونکہ دواخانہ سکندریہ کے قریب ہی تھا اس لئے نمازیں مسجد سکندریہ میں ہی ہوتی،ہر نماز کے بعد خاص طور سے میرے فرزند کی طبیعت سے متعلق دریافت فرماتے اور دعائیں دیتے،اس دوران نماز جمعہ کے بعد میرے فرزند کی صحت یابی کے لئے عام دعاء بھی فرمائی تھی اس کے بعد بھی گذشتہ دو سالوں سے جب بھی ملاقات ہوتی پہلے یہی دریافت فرماتے کہ فرزند کیسے ہیں پھر میری خیریت پوچھتے۔یہ میری خوش قسمتی ہیکہ مولانا نے مجھے اپنی سر پرستی میں آنے کاموقع دیا یہ مولانا کی محبت ہی ہیکہ انہوں نے اور مفکر ملت حضرت مولانا شریف مظہری نے مجھے جمعیت العلماء میں خدمت کابھی موقع دیا اورصدرواراکین جمعیت العلماء کے اتفاق رائے سے مجھے جمعیت العلماء کا دو مرتبہ معاون سکریٹری منتخب کیاگیا اور اس مرتبہ شریک خازن اور میڈیا انچارج منتخب کیا گیا ہے۔
مولانا نے ایک ایسے حساس علاقہ میں جہاں غیر مسلم آبادی ہے اور وقفہ وقفہ سے مدرسہ اور مسجد کیخلاف ان غیر مسلم افراد کی شرارتیں اور شکایتیں جاری رہتی ہیں ایسے علاقے میں مدرسہ کے ناظم اورمسجد کے خطیب وامام کی حیثیت سے مولانا نے دو دہوں تک جس احسن انداز میں خدمات انجام دی ہیں وہ اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے نہ صرف خدمات بلکہ اس علاقہ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ مستقل سکونت اختیار کرنا بھی قابل تحسین ہے اوراس کے لئے مولانا نے جو حالات کا سامنا کیا جو پریشانیوں کا سامنا کیا وہ مولانا کی بے مثال ہمت و صبر اور قربانی کا مظہربھی ہے۔مولانا کی تعلیم وتربیت سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد تو بہت ہے جو آج حافظ عالم وفاضل بن گئے ہیں ان کے علاوہ عام عوام بھی مولانا سے فیض حاصل کرتی رہی ہے۔دارلعلوم سکندریہ میں مہمانان رسولﷺ کی تعلیم وتربیت کاجونظام قائم کیاہے اس کا بھی زمانہ معترف ہے۔ناظم دارالعلوم سکندریہ کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ بے شمار جلسوں اورپروگراموں میں نعت خوانی،خطاب اورنظامت فرماتے رہے ہیں۔
حضرت مولانا مرحوم جب بھی نعت پڑھتے تھے تو عشق نبی ﷺسے سرشار ایک لطف و جذب کا سماع باندھ دیتے۔مولانا کے خطاب شہر کے علاوہ باہر بھی اطراف دوروقریب کے شہروں اور قصبوں میں ہوتے رہتے تھے۔جمعیت العلماء ہند ضلع گلبرگہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے بھی حضرت مولانا کے گراں قدر بے مثال اوربے نظیر بنیادی خدمات جاری تھے۔مقامی سطح پر ضلعی سطح پر ریاستی سطح پر اور مرکزی سطح پر جمعیت کے ہر کام وپروگرام میں حضرت مولانا پیش پیش رہتے ،حضرت مولانا مرحوم کی سرپرستی اورمفید مشوروں سے دینی مدارس اوردینی تنظیموں کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی ادارے بھی مستفید ہوتے رہے ہیں۔ ملی و دینی معاملات کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بھی حضرت مولاناپیش پیش رہتے۔رمضان المبارک میں جمعیت العلماء کے تحت ترتیب دئیے گئے درس قرآن کی نشستوں میں بھی اہتمام سے درس دیتے.
بہر حال حضرت مولانا کی بے شمار دینی و ملی خدمات ہیں اور ان تما م خدمات کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔اعتدال وتوازن مولانا مرحوم کی شخصیت کاخاصہ تھا۔شخصیت میں جاذبیت جاندار آواز شاندار انداز بیان، اعتدال وتوازن حضرت مولانا مرحوم کی بے شمار خوبیوں میں سب سے نمایاں ہیں۔ مولانا مرحوم نہایت متقی وپرہیزگار اورمخلص انسان تھے۔ حلیم الطبع خوبرو اورخوش آواز حضرت مولانا سید مصباح الحسن ہاشمی نوراللہ مرقدہ کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ انہیں کسی سے اختلاف نہیں تھانہ صرف سب سے مل کے رہتے بلکہ سب کو جوڑے رکھتے یہی وجہ ہیکہ مولانا کی مقبولیت اورمحبوبیت عام تھی،آپ کی خوش مزاجی ایسی تھی کہ ہر طبقہ میں آپ کی توصیف و پذیرائی ہوتی تھی، منکسرالمزاجی اور وضع داری کا پیکر تھے۔ حضرت مولانا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء وعمائدین سے ان کے قابل قدررابطے اور تعلقات رہے ہیں اورشہرکے ذی اثر اورقابل احترام شخصیات میں حضرت مولانابھی صف اول میں نظرآتے ہیں،سادگی اورقناعت پسندی ان کی فطرت میں شامل ہے۔
خوش اخلاقی،سنجیدگی،متانت ووقار ان کی شخصیت میں نمایاں ہیں۔ صبر و تحمل کانمونہ اور سادگی و متانت کی مثال تھے۔مولانا کی حیات و خدمات ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔حضرت مولانا سید مصباح الحسن صاحب ہاشمی نوراللہ مرقدہ نے 16رمضان المبارک مطابق29اپریل بروز جمعرات کوداعی اجل کی پکار پر لبیک کہا۔ اللہ رب العزت کے پاس بھیمولانا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ماہ مقدس رمضان المبارک میں کلمہ شہادت کے ساتھ حضرت کے اپنے یہاں آنے کو پسند فرمایا۔ بارگاہ الہی میں دعا ہیکہ اللہ رب العزت حضرت مولانا سید مصباح الحسن ہاشمی نوراللہ مرقدہ کے حسنات جمیلہ اور خدمات جلیلہ کوشرف قبولیت بخشے اوراپنے شایان شان اس کااجر عظیم عطافرمائے اورحضرت مولاناکے درجات بلند فرمائے۔آمین