شخصیاتمضامین

اکابرین کی رحلت۔۔۔ لمحہ فکریہ

از: بریرہ خلود، آکولہ

آزادئ ہند کے بعد ہی سے ملک کے حالات و گوناگوں مسائل کی بناء پر مختلف مقاصد کے تحت الگ الگ تحریکوں کی بنیادیں ڈالی گئیں تھیں۔ جن میں کچھ ایسی تنظیمیں اور تحریکیں شامل تھیں جن کا نصب العین "کلمتہ اللہ ھی العلیاء” کی اشاعت و نفاذ تھا‌۔ یہ تنظیمیں ایک مدت تک تو اپنے مقاصد کو لے کر فعال رہیں مگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و نظریات میں تبدیلی آنے لگی اور ان کے مقاصد کی ٹرین مخالف سمت میں چلنے لگی۔ لیکن۔۔۔ ان میں کچھ لوگ تھے جو اپنے مقاصد کو لے کر اب بھی سنجیدہ تھے، خالص تھے، مخلص تھے۔ اللہ نے ان کو فہم و ادراک و استقامت عطا فرمائی اور وہ باطل افکار و نظریات والوں سے چھٹ کر حق پر قائم رہنے والے ایک چھوٹے سے گروہ کو لے کر اٹھے، رفتہ رفتہ اس چھوٹے سے گروہ میں اللہ نے برکت ڈالی اور ” لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا” کے مصداق اس گروہ کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں، اور الحمدللہ! کچھ ہی سالوں میں وہ ایک عظیم الشان تحریک کے طور پر سامنے آئی کہ جس کا مقصد "لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانا” بن گیا۔

اس تنظیم کے کارکنان کی سیرت و کردار ایسے مضبوط و اعلیٰ نمونے کے طور پر سامنے آئی کہ جسکی نظیر ملک عزیز کے موجودہ وقت میں کسی گروہ میں نہیں مل سکتی تھی۔ جو اپنے مقاصد کو لے کر سنجیدہ تھے،جو حق کی خاطر سب کچھ لٹا دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے،جو اپنی جان و مال و اولاد و اقارب سے زیادہ اپنے مقاصد کو عزیز رکھتے تھے، جو باطل کے لئے تو سخت جاں تھے مگر اپنوں کے لئے نرم و نازک تھے۔ بالکل اس شعر کے مصداق:ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرمرزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومنجو دن کے غازی اور رات کے عابد و زاہد تھے، جنہیں دیکھ کر باطل پر ہیبت طاری ہو جاتی تھی اور جن کی بےسروسامانی کے باوجود صرف ان کے افکار و نظریات سے ہی باطل لرز اٹھتا تھا، جنہوں نے باطل کی نیندیں اڑادی تھیں اور جنہیں دیکھ کر یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ عنقریب یہ قلیل گروہ ایک کثیر گروہ پر غالب آئے گا۔ اسی وجہ سے ان پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ وقت گزرتا گیا۔ یہ بندہ مومن حق کی بلندی کے لئے دن رات تگ و دو کرتے رہے، اپنے رب سے مدد و نصرت کی دعائیں کرتے رہے اور رب العالمین نے بھی انہیں ہر مشکل اور آزمائش میں استقامت نصیب فرمائی۔ وہ لوگ "بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق” کے مصداق ہر آزمائش و مصیبتوں میں ڈٹے رہے۔

حالات بدلتے رہے، ان پر مصیبتیں برسات کے قطروں کی طرح گرتی رہی،ان پر مظالم ڈھائے گئے مگر یہ ثابت قدم رہے، انہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں، انکی معیشتیں چھینی گئیں۔ خود انہی کی ملت کے کچھ لوگ حریفوں کی صفوں میں کھڑے ہوگئے۔ مگر ان اللہ کے مقرب بندوں نے یہ سب برداشت کیا اور آخرکار وہ ایسی مضبوط چٹان کی مانند ہوگئے جو ہر طاغوت سے ٹکرانے کی ہمت رکھتی تھی۔ وقت گزرتا رہا۔۔یہ لوگ اپنی ابتدائی زندگی کے قیمتی ترین سال راہ حق میں،غلبہ دین کی سعی و جدوجہد میں اور حق کی خاطر طرح طرح کے مصائب و آلام جھیلنے میں لگا چکے تھے۔ پھر اک نسل نو وجود میں آئی۔جو چاہتی تھی کہ انہی کے نقش قدم پر چلے، ان کی راہوں کو اپنی گزرگاہیں بنائے،انکے نقش پا پر چل کے انکے مقاصد کو جلا بخشے۔ نئی نسل اسی راہ پر گامزن بھی تھی مگر رحمت خداوندی کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پچھلے سال سے حالات قدرے مختلف ہوگئے۔

کووڈ پینڈامک نے جہاں ہر کسی کو گھروں میں قید کردیا ، وہیں اس کی وجہ سے لوگ مختلف مسائل میں گھر گئے، لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں، بزنس ٹھپ ہوگئے ایسے میں ایک بہت ہی بڑا خسارہ ملت اسلامیہ کا یہ ہو رہا ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی اکابر کی رحلت کی خبر ملنے لگی۔ ابھی ایک کا غم ہلکا بھی نہ ہو پاتا کہ دوسرے کی خبرِ غم دل کو جھنجھوڑ دیتی۔ یہ سلسلہ ایسا ہی ہے کہ جیسے تسبیح کے دانے یکے بعد دیگرے بکھرتے جارہے ہو۔ اس کووڈ پینڈامک میں ہم نے اپنی کئی عظیم شخصیات کو کھویا ہیں جو ملت اسلامیہ کے قائدین تھے، جنہوں نے ابھی کئی نسلوں کی رہبری کرنی تھی، اور تحریک کے کارکنان ان کی رہبری کے منتظر تھے۔ اس پینڈامک میں سب سے بڑا نقصان اسلامی تحریکوں کو ہوا کہ جنہوں نے "اللؤلؤ والمرجان” کو کھودیا۔ یہ درحقیقت ایک بہت ہی بڑا خسارہ ہے جس کے لئے ملت اسلامیہ ابھی تیار نہیں تھی۔ مولانا نصیرالدین صاحب، مولانا رفعت صاحب،مولانا رفیع الدین رفیق صاحب ،امیر شریعت مولانا ولی رحمانی صاحب،مولانا احسن اللہ فلاحی صاحب اور ابھی چند روز قبل مولانا سالم صدیقی صاحب اس گلشن سے جدا ہو گئے۔

ہمیں امید ہے کہ وہ اپنے رب کے یہاں بہترین مقام پر، اعلیٰ مسندوں پر بیٹھے جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہےہوگے ان شاء اللہ۔ لیکن ان علماء کی یکے بعد دیگرے رحلت ہمارے لئے بہت بڑے خسارے کا باعث بن چکی ہے۔خاص کر سالم صدیقی صاحب جن کے لئے نماز فجر تک صحتیابی کی دعائیں مانگی جارہی تھیں، اور نماز ظہر میں ان کی مغفرت و بلندئ درجات کی دعائیں مانگی گئیں۔  ایسے حالات میں۔۔ایک سوچ مسلسل قلب و ذہن کو پریشان کررہی ہےکہ۔۔کیا ملت اسلامیہ کے پاس ان اکابرین کا نعم البدل موجود ہیں؟ کیا ہماری نسلِ نو اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہ بلند اخلاق کی حامل ہو، جو اپنوں کے لئے تو نرم ہو مگر رزم حق و باطل میں فولاد کی مانند سخت ہو؟ کیا ان کے اذہان حق و باطل کی پہچان کر پارہے ہیں؟کیا یہ نسل نو بنیادی باتوں سے اٹھ کر طاغوت کے سامنے سینہ سپر ہوکر لاالہ الااللہ کا پیغام عام کرنے والی بن گئی ہے؟

ملت اسلامیہ کو ایسی نسل درپیش ہے جو کسی بھی مصلحت پسندی کے نام پر باطل سے "کچھ لو اور دو” کے معاملات نہ کریں۔ ملت اسلامیہ نے وہ سیاہ دن بھی دیکھے ہیں جب ان کے ایمانی جاں فروش ساتھیوں کے افکار تزلزل کا شکار ہوئے،ان کے قلب و ذہن باطل سے متاثر ہو کر حق کی راہ سے ہٹ گئے،تو پھر اس پر فتن ماحول میں یہ نوخیز نسل ان فتنوں سے کیسے پائے گی؟ ان حالات میں کرنے کے کام: یہ وقت فتنوں کا وقت ہے۔ جبکہ باطل طاقتیں ہر جانب سے ہم پر حملہ ور ہورہی ہیں اور ہماری فکروں و نظریات پر قابض ہو رہی ہیں،ان کی سازشیں ہمارے گھروں کے اندر تک پہنچ چکی ہیں۔ایسے حالات میں بر وقت سنبھلنے کی ضرورت ہے، ملت اسلامیہ اپنی عظیم شخصیات کو کھو کر پہلے ہی خسارے میں چل رہی ہے۔

ایسے میں ہمارے وہ اکابرین جو ہمارے درمیان موجود ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کیجئے، ان کے افکار ان کے نظریات کو جذب کر کے اپنی روح میں اتارنے کی کوشش کیجئے، ان کی صحبتوں میں زیادہ تر وقت گزاریے،انکی لکھی تصنیفات کا مطالعہ کیجئے اور ایسی ہی فکر والی کتب کا مطالعہ کیجئے جو آپکو ایک مقصد دے سکے ، صحیح راستہ بتا سکے اور ان ساری کتب سے اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کیجیئے۔ ہمارے بڑوں سے بھی مؤدبانہ گزارش ہے کہ ہمارے وہ اکابرین جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور یقیناً آپ لوگ انہیں بہت قریب سے جانتے ہوگے، ان کے ساتھ کافی وقت گزارا ہوگا تو آپ سے گزارش ہے کہ اپنے ان ایمانی دوستوں کے ساتھ گزارے گئے تحریکی سفر کے شب وروز،ان کی اخلاقیات،ان کے افکار و نظریات، مصائب و آلام میں ان کا صبر و تحمل اور اس سے نکلنے کا لائحہ عمل، ان کی ملت اسلامیہ کے لئے قربانیاں،اپنوں کے کیے گئے ستم اور ان کی اعلیٰ ظرفی کے نمونے۔۔۔

ان تمام حالات و واقعات کو نسل نو کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کیجئے تاکہ نسل نو، ایمانیات و اخلاقیات کے اس قیمتی سرمایہ سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو سنوارے اور آئندہ کچھ ہی وقت میں ملت اسلامیہ ایک روشن و تابناک مستقبل کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑی ہو اور ان اکابرین کا نعم البدل، ان کا عکس ہمارے نوجوانوں میں نظر آئے۔ اسی طرح نسل نو کے کرنے کے کام:سب سے پہلے اپنے اندر تقوی پیدا کرنے کی کوشش کریے کیونکہ مومنین کی یہ خاص صفت ہے کہ وہ رب کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے اور تقوی ہی وہ واحد نسخۂ کیمیا ہے جو آپ کو ہر قسم کے فتنوں سے بچائے رکھےگا۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجئیے،سنتوں کو اپنائیے،علم احادیث کو مستند طریقے سے حاصل کریے،رسول اللہ کی سیرت مبارکہ کا تفصیلی مطالعہ کیجئے،صحابہ اکرام کی سیرت اور تاریخِ اسلام کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرنے کا اہتمام کیجئے۔ اور سب سے اہم بات، موجودہ وقت میں تمام حالات سے آگاہ رہیے، بے فکری کی زندگی سے باہر نکلیے اور اسلامی حقائق سے آگاہ ہوئیے اور ایسے میگزینز پڑھیں جو جھوٹ کا پلندہ نہ ہو۔اپنے اخلاق و کردار کو بہترین بنانے کی کوشش کیجیئے

بقول شاعر:وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تاراجوانی جس کی ہو بے داغ ضرب ہے کاریاپنی نوجوانی کا وقت دین کے لئے لگائیں کیونکہ امت کو نسل نو کی سخت ضرورت ہے،کسی بھی جماعت،تنظیم یا تحریک سے جڑیے مگر جڑیے ضرور۔ جو بکری ریوڑ سے الگ نکل جاتی ہے اسے بھیڑیا کھا جاتا ہے۔ ایک رہئے۔۔۔متحد رہئیے۔۔۔ اور اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ جس جماعت،تنظیم و تحریک سے جڑ رہے ہو اسکے مقاصد کیا ہیں؟ کیا وہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے سعی و جدوجہد کر رہی ہے؟ اور کس طریقے سے کر رہی ہے؟ کیا باطل کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کا معاملہ اختیار کیے ہوئے ہے یا پھر ببانگ دہل "لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ” کا اعلان کر رہی ہے۔

اللہ ہمارے اکابرین کو صحت و تندرستی عطا فرمائے، انہیں اس پینڈامک سے محفوظ رکھے اور انکا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور وہ لوگ جو اس دارفانی سے کوچ کرگئے رب العالمین ملت اسلامیہ کو ان کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے، انکی قبروں کو نور سے منور فرمائے ان کے درجات بلند کرے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور دنیا میں اٹھائی گئی انکی ہر تکلیف کے بدلے انہیں جنتوں میں راحت و سکون بخشے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!