عید کی خوشی کِس کے لئے…!!!
فاطمہ زہراء صالحاتی، بنگلورو
عید کے معنی بار بار واپس آنے والی ہے۔ اسلام میں عید کا بہت ہی جامع، پر وقار ممتاز تصور پایا جاتا ہے۔ عیدین خالص اللہ کی جانب سے متعین کردہ ہے۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال کے بعد مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ دو دن عید کے طور پر مناتے ہیں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا دن ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ہم زمانہ جہالت سے ہی ان دنوں خوشی مناتے ہیں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے ان دونوں سے زیادہ بہتر دو دن تمہیں عطا فرمائے ہیں۔ عیدالفطر، عیدالاضحی۔اب سوال یہ کہ ماہ رمضان کے بعد ہی کیوں عید منائی جائے۔۔؟
رمضان المبارک کی رات تھی جبکہ غار حرا کی گہری تاریکیوں میں دنیا کی مقدس ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ پہلی وحی نازل ہوتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا، یہ وہ رات تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر نبوت کا تاج پہنایا گیا ۔۔۔مزید یہ وہ وقت تھا جس میں قرآن کریم کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا مکمل نازل کیا گیا ۔۔۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں رسول اور قیامت تک کے لیے ہر بنی نوع انسانی کی رہنمائی کے لیے قرآن عطا فرمایا گیا یہ بہت بڑی نعمت ہے اس سے بڑی نعمت ہو نہیں سکتی ۔۔جس کی وجہ سے اھل ایمان کو سورہ یونس میں خوشیاں منانے کا حکم دیا گیا ۔۔۔۔۔قل بفضل الله و برحمته فبذالك فليفرحوا هو خير مما يجمعون……….اے نبی کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کے مہر بانی ہے ۔۔یہ چیز اس نے بھیجی ہے ۔۔۔اس پر تو لوگوں کو خوشی منانے چاہے ۔۔۔یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے ۔جنھیں یہ لوگ سمیٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایسی نعمت تھی جس پر خوشیاں منانا چاہیے ۔۔کھل کر جھوم کر خوشیاں منانا چاہے ۔۔پوری انسانیت ہدایت کی بھوکی اور روحانیت کی پیاسی تھی ۔۔اللہ نے سب کے لیے زبردست افطار کا انتظام فرمایا۔۔مزید قرآن اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ امت مسلمہ عام گروپ ۔۔عامامت نہیں ہیں ۔۔بلکہ یہ اللہ کی طرف سے چنندہ ۔۔برگزیدہ ۔۔منتخب افراد ہیں ۔۔ ۔۔وارث قرآن کے طور پر چنلیا ہے ۔۔۔اللہ اکبر اتنا بڑا انعام ۔۔
پس اصل عید اور عید کی خوشیاں کے اصل حقدار وہ افراد ہیں جو کار عظیم کو انجام دینے کے لیے از سر نو تازہ دم ہوئے ۔۔صیام النہار ۔۔اور قیام اللیل ۔تلاوت قرآن ۔۔شب بیداری ۔۔صدقہ و خیرات کے ذریعہ تپا تپا کر اپنے آپ کو تیار کیا ۔۔۔۔۔جنھوں نے برکتوں رحمتوں کو لوٹا۔۔۔۔۔تلاوت قرآن سےلطف اندوز ہوئے ۔۔قلب و ذہن کو بدلا۔۔۔۔مقصد زندگی کو نئے سرے سے منتخب کیا۔۔۔۔۔اس ماہ مبارک میں روحانی طاقت حاصل کرکے جوش و ولولہ اور خدائی نظام کو نافذ کرنے کا جنون پیدا کیا۔۔۔انھیں کے لے عید ہے۔۔۔حقیقی خوشی انھیں افراد کے لے ہے۔۔۔۔۔
تعلق بااللہ کے عظیم الشان مرتبہ تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ جس نے انسانوں سے تعلق کے معاملے کو بہتر بنایا ۔۔۔۔جنھوں نے دلو ں کے بھید ۔غم ۔غصہ ۔نفرت۔حسد ۔جلن ۔۔کو کھرچ کھرچ کر نکال باہر کیا ۔۔اور ساری انسانیت کے لیے سرور کائنات کی طرح چھوٹی ہوئی ہوا کے مانند ہوئے ۔۔۔۔۔اصل حقدار عید کے وہ ہیں جنھوں نے صلہ رحمی کی ۔مواخاۃ و بھائی چارگی کا نمونہ بنے رہے ۔۔ دوسروں کے فائدہ کے لیے اپنا نقصان برداشت کرنے والے ۔۔بے لوث ۔۔۔مساکین و غرباء ۔۔مفلس ۔بیوہ ۔۔یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے والے بنے اصل خوشی انھیں کے لیے ہیں ۔۔۔۔
عید ان کی تھی عباس حسرتیں جو اپنی قربان کر گئےفقط رسمیں نبھانے سے خدا راضی کب ہوا، کس سے ہوا
جنھوں نے ملت اسلامیہ کے ہر ہر فرد کو دعاوں میں یاد کیا ۔۔ جس نے رمضان کی عبادتوں میں حقیقی خوشی کو تلاش کیا ۔۔۔۔جسے اطمینان ہو کہ اللہ کے رحمتیں میں نے پالی ۔۔۔مغفرت پانے کی کوشش کی ۔۔۔دوزخ کی فکر میں اپنے پروردگار کو منوالیا ہو ۔۔۔۔اس کے بعد نہ اکڑتے ہیں ۔نہ اتراتے ہیں ۔ ۔۔۔نہ اپنی عبادتوں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔۔بلکہ اسی غم میں مبتلا میری عبادت قبول ہوگی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔حضرت عمر فاروق ( رض) ۔۔۔۔عید کا دن ہے ۔۔دروازہ بند کرکے رو رہے ہیں ۔۔۔۔لوگوں نے دیکھا تو پوچھا عید کا دن ہے خوشی کا دن ۔۔۔یہ حزن و ملال کیسا کیا وجہ ہے ؟؟؟ ۔۔حضرت عمر (رض)..نے فرمایا ۔۔۔عید تو اس کی ہے جس کے روزوں کو اللہ نے قبول فرمالیا ۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم اللہ نے میرے روزوں کو قبول کیا ہے یا نہیں ۔۔۔۔
عید اللہ کی طرف سے مومنین کے لیے ایک تحفہ ہے ۔۔۔ہمارے حالات ۔۔کیفیت ۔۔۔طبیعت ۔۔جیسے بھی ہوں ۔۔۔اس دن کو ہم فراخدلی کے ساتھ خوشی و مسرت کا اظہار کرکے منائیں ۔۔۔۔۔اپنی خوشی میں حتی الامکان دوسروں کو اور خصوصاً ہمارے فلسطینی بھائی بہنوں کو اپنی مخصوص دعاوں میں شامل کرکے اپنی خوشی کو دو بالا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔