مسلم لڑکیاں اور بین مذہب شادیاں
عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
سول کورٹ کےاعداد وشمار ظاہر کر رہیے ہیں کہ مسلم لڑکیاں انٹر کاسٹ میریج(بین مذہب شادی) کے لیے کثرت سےنام درج کرارہی ہیں،۔پورے ملک اور خصوصیت سےمہاراشٹر کے بڑے شہروں میں تیزی کے ساتھ واقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔ صورت حال یہ ہے کہ بہت سی ریاستوں میں لو جہاد مخالف قانون نافذ کیا جارہا ہے۔اگر غیر مسلم لڑکی عشق کے چکر میں مسلمان لڑکے سے شادی کرتی ہے تو قانون حرکت میں آجاتاہے۔ گودی میڈیا کی چینخ پکار شروع ہو جاتی ہے۔لیکن مسلم لڑکی غیر مسلم سے شادی رچاتی ہے تو قابل قبول کی سند ملتی ہے ۔
2018کی سروے رپورٹ کے مطابق 20 فیصد نابالغ انٹرنیٹ دیکھنے کے عادی ہیں ۔
یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک،یو ٹیوٹ ویڈیوز،گندےکارئون، فحش فلمیں، بے شرمی کےمکالمے، خصوصی میک اپ، بلوغ کے راز، صنف مخالف سے آزادانہ دوستیاں، رشتوں کے نام پر لڑکا، لڑکی کی آزادانہ ملاقات،فحش لٹریچر اور عریانیت کے سارے حربے عام ہیں۔
مخلوط تعلیم، ہوٹل بازی، کالج کلچر، بناؤ سنگھار، تفریح کے نام پر ون ڈے پکنک، شاپنگ، صنف مخالف کو پھانسنے کے لیے مہنگے تحفے، اچھے قیمتی اسمارٹ فون، آئ پیڈ، لیپ ٹاپ، اسکوٹر دلاکر معشوقہ کاای ایم آئی بھرنا۔ رض دلانے میں گیرینٹر بننا، فون نمبر حاصل کرکےمسلم لڑکیوں کو جھوٹے عشق میں پھانسنے کا ریکیٹ بہت کچھ خفیہ منصوبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور
پھر شروع ہوتا ہے لڑکی کا جنسی استحصال۔ پہلے گھمانا پھرانا، فاسٹ فوڈ کھلانا، بائیک پر سیراور گھر کے قریب سے پک اپ اور گھر سے تھوڑی دوری پر ڈراپ کردینا۔شیک ہینڈ، پھر بوس وکنار، لپٹانااور بغل گیر ہونا۔
مسلم لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم کے لیے تنہا رہنا۔مخلوط کالج میں پڑھنا اور پھر نوکری کے لیے بھاگ دوڑ اور مردوں سے مسابقت،غیر محتاط رہنا،ایکسٹرا اسمارٹ ،منہ پھٹ، نڈر اور بے باکی کا مظاہرہ کرنا۔مندرجہ بالا اسباب آزادی اور ایک لبرل سوچ دیتے اور مسلم لڑکیوں کو اپنے دام میں پھنسا کر ان کی زندگی کو الجھا دیتے ہیں ۔
مسلم معاشرے کو دیکھیےاورگھر، گھروندے کاجائزہ لیجیے تو اسباب یہیں بکھرے پڑے ہیں ۔والدین کےروز روز کےآپسی جھگڑے، بھائی بے روز گار، والد پریشان ۔ایک ادھ بہن سرال سےمیکے میں واپس۔مذہب اور اسلام کی تعلیمات سے دوری، آزادی اور آزاد سوچ
۔جوانی کی حد پار کرتی لڑکیاں، بھاری جہز کی مانگ اور شادی کے بے جا رسومات میں لگنے والا کثیر صرفہ۔
لڑکیوں کا ایسے کورسیز میں داخلہ جہاں مردوں کے شانہ بہ شانہ رات دن کام، تنہائی، باس کی پرسنل سیکریٹری اور آفس کی ریشپسن پر فل میک اور جسم کی نمائش کے ساتھ حاضراور پھر job نوکریوں کی بڑھتی خواہش ۔ صارفیت کلچر ماڈرن شوق جو پورے کرنے ہیں۔
ان سارے جھمیلوں میں شادی کی عمر نکلی جارہی ہیے۔جو رشتے آرہیے ہیں وہ قابل قبول نہیں- ان میں طرح طرح سے نقص نکالے جارہے ہیں۔ کوئی نظر میں جچتا ہی نہیں۔
اب لڑکی کمانے اور گھر چلانے لگی ہیے ۔والدین کے شادی کے تقاضے کو ٹال رہی ہیے۔آزاد خیال اور روشن خیال جو ہو گئ۔انٹرنیٹ میں زیادہ سرفنگ ہورہی ہیے۔بند کمرے میں بہت کچھ دیکھا جارہا ہیے، وقت بے وقت کالوں کا سلسلہ جاری ہیے۔ؤاٹس ایپ اور فیس بک،انسٹاگرام، ٹیلیگرام، ٹروکالرپر چھائی ہوئی ہے۔خوب اور ہر رجھانے والے سے چیٹنگ ہورہی ہے۔دنیا جو سمٹ کر مٹھی میں آگئی ہے ۔
معاشرے کے لڑکے،کزن کم پڑھے لکھے اوپر سے معقول ملازمت نہیں، بے روزگار ہیں ۔
اب کمپنی کے لڑکوں کے ساتھ کام کرتے اختلاط نے چاہت بڑھادی۔محبت کے جال میں پھنس رہیے ہیں۔
معیار زندگی کو اٹھانے کے شوق نے
کردار پستیوں سے بھی نیچے گرادیا
غیر مسلم لڑکا آپ کے مذہب پر رقیق حملے کر کےاور معاشرے کی برائیاں ِگنا َِِِِِِِِگِنا کرلڑکی کومذہب بیزار بنارہا ہیےاور اپنی محبت میں اضافہ کرنے کے لیے وہی کچھ کر رہا ہیے جو لڑکی کو پسند اور اس کی جنسی ضرورت ہے ۔اوپن ریلیشن، افیر، شاپنگ، پکنک وغیرہ۔
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
اب شروع ہوتا ہیے ارتدادکا فتنہ اورکفر سے بد تر حالت۔لڑکی عشق کےدام میں پھنس گئی ہے-اپنےوالدین کو سمجھا کر راضی کرانے کی کوشش کر رہی ہیے۔نہ مانے تو خودکشی کی دھمکیاں ۔اس سے بھی نہ مانیں تو باہمی ناجائز تعلقات کی سٹی اسکین رپورٹ حاضر،بے شرمی کے ویڈیو پیش۔
والدین مجبورہیں۔ کمانے والا ہاتھ ہیے۔گھر اس سے جوچل رہا ہیے۔ اس کی رائے دوسروں پر بھاری ہیے۔اپنا سب کچھ اپنی مرضی سے جو کرتی آئی ہیے۔ اپنے فیصلے خود کرنے کی عادی ہیے۔
بچاؤ اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے
18برسوں کی تربیت، توحید، عبادات، نماز روزے اب انٹر کاسٹ میریج کے چکر میں سب کو چھوڑ نے پر راضی! زبانی اور عملی طور پرکفر وشرک کی دہلیز پر ڈیرہ ڈال رہے ہیں۔ عشق بلا خیز اور سبزباغوں کی سیر کے آگے عقیدہ،ایمان، دین اسلام ،رشتے ناطے، والدین، خاندان سب کو چھوڑنے کے لیے تیارکھڑی ہے۔
اپنی مسلم بیٹی inter cast marriage اور inter faith میریج کے لیے اپنے حق بلوغیت کا استعمال کر نے 18منٹ کے فیصلے میں سول کوٹ پہنچ گئی ہیے۔
اے دختران ملت!
خدارا باطل کی سازش کو سمجھیے،وہ آپ کی عصمت وعفت سے کھلواڑ کر کے اپنے ناپاک منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے تمہارا استعمال بطور سیڑھی کر رہیے ہیں۔
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اے لیڈران قوم اور علماء عضام! ملّت کی لڑکیوں کو اس فتنہ سے بچائیے ۔ اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کا سامان کیجیے۔ان کو اسلام سے جوڑنے کی جدوجہد کیجیے۔
دیکھیےرخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔
لیجیے اب شادی کےایک ادھ سال بعد محبت کی برف پگھلنے لگی، بھرم ٹوٹاہیے۔غیر مسلم شوہر نشہ کررہا ہیے، شراب پی کر آتا ہیے۔خوب گالی گلوچ اور آپ کے مذہب اور پیدا کرنے والے ماں باپ کی توہین کرتا ہیے۔خوب مار پیٹ کر تاہیے۔جانوروں سا سلوک کرتاہے۔آپ کے والدین نے ملاقات بند رکھی ہیے۔لڑکی کی بغاوت اور سرکشی سے رشتہ داروں کے دروازے اس پربندہوگئے ۔اس وجہ سےغیر مسلم شوہر اور دلیر ہو گیا ہیے۔اب تنہا اس عذابِ کو بھگتنا ہیے۔
اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
کچھ خبریں تو ایسی بھی مل رہی ہیں کہ اب دوست اور ساتھی بھی رات گھر پر رکنے لگے ہیں-پہلے بے ہودہ مذاق،چھیڑ چھاڑ، پھرچھونا اور موقع کی تاک میں جنسی استحصالExploitation۔سب کشتیاں جلا کر جانے والی لڑکی اب بے بس ہے۔اپنا دکھڑا کس کو سنا ئے۔کون اس جہنم سے نکالے؟
اسلام کے سائے تلے، پردہ اور عصمت محفوظ ومامون تھی، مسلمان شوہر باوجود اس کے کہ کم پڑھا لکھا، معمولی روزگار سے تھا ،سادے گھر میں رہتا، ان برانڈیڈ چیزوں سے ضرورت پوری کرتا، لیکن دیوثیت اس میں نہ تھی ۔دینی حمیّت و غیرت اس کا آب دار جوہر تھی وہ اس کے لیے زمانے سے لڑجاتا پر عِصمت کا سودا نہ کرتا۔ مگر یہاں تو سر پر ترقّی، آزادی، مرضی، لذّتِ نفس اورماڈرن بنے کی ہوڑ سوار تھی جس کے کڑوے کسیلے پھلوں کے عملی مزے اور سر کشی کے غلط فیصلے کے نتیجے ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔
عدل وانصاف فقط حشرپہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
ارتداد سے واپسی ممکن ہے، سچی توبہ واستغفار سے۔
“جو دین اسلام کو چھوڑکر دوسرے دین اختیار کرے اس کی سزا موت ہیے” ۔ان کے اعمال دنیا میں بھی اکارت گئے اور آخرت میں بھی ۔”جو مرتد ہوا اس کا نکاح خودبخود ٹوٹ جائے گا ۔اور اگر اسی حالت میں مرگیا تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ ہو گی اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ ہو گی-” (بحرالرائق324/2)
نہ خداہی ملا نہ وصال صنم
مسلم لڑکیاں اپنی زندگی کو اس طرح ضائع نہ کریں۔اپنے ایمان اور مذہب اورآخرت کو داؤپر نہ لگائیں، والدین کو دھوکا نہ دیں، بھائیوں کی گردن جھکانے، سماج کو ہنسنے اور باطل طاقتوں اور اسلام مخالف قانون بنانے والوں کو اپنی جیت اورخوش ہونے کاموقع نہ دیں۔
ایک دین دارعورت سے ایک اسلامی خاندان بنتا ہے یہ خاندان جنّت میں جانے اور اس کی غلطی سے جہنم میں جا نے کا سبب بن سکتا ہیے۔۔
تدارک کی تدابیر
(1)سماج میں نکاح کو آسان سے آسان بنائیے-
(2)جہز اور شادی کے اسراف کو ختم کیجیے۔(3)لڑکیاں بالغ ہوتے ہی ان کے نکاح کی فکر کیجیے ،یا کم ازکم ان کے رشتے طے کر دیجیے-
(4)بچپن ہی سے ایمان ۔توحید، رسالت، آخرت پر گہرا یقین پیدا کرائیے۔گھر اور اسکول میں اسلامی ماحول فراہم کیجیے-
(5)نمازوں کی پابندی کی ترغیب دیجیے-(بے شک نماز فحش اور برُے کاموں سے روکتی ہے)-
(6)تلاوت قرآن، ترجمہ قرآن کا نسخہ ،احادیث اورنبی کریم صلی الله عليه وسلم سیرت، کچھ اسلامی لٹریچر ،آداب زندگی ،تعلیم الاسلام ہر گھر میں موجود رہے۔اذکار، تقویٰ، مسنون دعاؤں سے اپنے بچّوں کی تربیت کیجیے-
(7)اگر شیطا ن تمہیں کچوکے لگائے تو الله کی پناہ مانگیے-
(8)اپنی نوجوان نسل کو دینی جماعتوں،تنظیموں، اداروں اجتماعات اورد ینی تعلیم کو تربیت کے مراکزسے جوڑے رکھیے۔
(9)معاشرتی فیمیلی کونسلنگ اور مشاورت سے اپنے مسائل کے حل کے لیےمدد لیجیے-
معاشرے کی عملی اصلاح کی طرف بھر پور توجّہ دیجیے۔
(10)اپنی نوخیز نسل کو اچّھی اور صالح صحبت وسنگت فراہم کیجیے۔
صحبت صالح ترا صالح کنند
صحبت طا لع ترا طا لع کنند
بُری سنگت اور دوستو ں ،سہیلیوں پر نظر رکھیے۔تنہا دیر گیے آنے جانے پر ہوچھ گچھ کیجیے۔ضروری ہو تو والدین ساتھ شرکت کیجیے ۔
“ایمان والوں کا حامی وناصر الله ہےاور کافروں کا حامی و ناصر کوئی نہیں” –
اے اللہ میں سوال کرتا ہوں خوش گوار زندگی کا، اچھی موت کا اور ایسی زندگی کا جو ذلّت اور رسوائی سے خالی ہو۔(آمین)
کون ہے جو دکھی دل کی دُعا سنتا ہے؟کہو الله! میرا رب