عورت بحیثیت بہو
سحرش خان
ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونے کے بعد مشرقی عورت خود کو محکومہ سمجھتی ہے در حقیقت یہ خوف اور ڈر پسِ منظر ہوتا ہے کہ کہیں اسے دھدکار نہ دیا جائے اور اپنے والدین کے لئے باعثِ زحمت نہ بن جائے۔اور اولاد کے پیدا ہونے تک وہ اسی خوف میں زندگی گزارتی یے۔ اولاد کی نعمت ملنے کے بعد اسے کچھ حوصلہ سہارا اور امید ملتی ہے اس ازدواجی زندگی کو آگے لے کر چلنے کی۔ کیا ہی عجیب لمحہ یا موڑ ہے عورت کی زندگی کا کہ وہ اک ایسے انسان کے سپرد کر دی جاتی ہے جو اسے اور اس کے جزبات کو جانتا تک نہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس خدا کے شاہکار کو کن مشقتوں سے گزر کر پالا گیا ہے۔ اور یہاں بھی عورت کے حوصلے اور ہمت کی داد اس کا حق ہے کہ وہ ہنسی خوشی اس نئے رشتے کو تسلیم کرتی ہےاور اپنے محرم کو اس خواب کی تعبیر سمجھتی ہے جو اس نے سجائے تھے۔
والدین اپنے جسم کا ٹکڑا بخوشی انجان ہاتھوں کے سپرد کرتے ہیں۔ عورت اس مقام پر پہلے پہل خوشی و مسرت کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے اور بعد میں لوگوں کے چہروں سے نقاب اترتے ہیں۔ محرم کی ماں بہن اور بھائی کےرشتےآہستہ آہستہ ساس نند اور دیور جیٹھ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔آنے والی عورت بیٹی سےبہو بن جاتی ہے اور رشتوں کی ڈوری میں گرہیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عورت اپنے تمام دکھ تکلیفیں اور سختیاں اپنے آپ سے یا خدا سے بیان کرتی ہے۔
اپنے بھائی بہنوں کو اس لئے نہیں بتاتی کہ کہیں انہیں مشکل نہ ہو وہ دکھ میں نہ آ جائیں۔اور اس کے ضمیر پر لگنےوالے یہ زخم پلتے پلتے جان لیوا کینسر بن جاتے ہیں مگر حیرت ہے کی اس ناسور کے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے مجازی خدا کی فرمانبردار رہتی ہے۔ طعنے اور سختیاں سہتی ہے۔ یہاں مرد کمزور ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنا غم و غصہ نکال لیتا ہے مگر عورت کس کے آگے فریاد گو ہو۔ مگر اسے سہارا ہوتا ہے اللہ کا امید ہوتی ہے۔اس بات کی کہ اک نہ اک دن اس کی ان تکالیف کو راحت ملے گی اس کی محنت اور کاوشیں رنگ لائیں گی۔
یہاں اک بات قابلِ غور ہے کیا ہر عورت ایسا کرتی ہے نہیں برا کرنے والی عورت کبھی ایسا نہیں کرتی اسے اپنی انا اور غرور پیارا ہوتا ہے وہ گھر آباد کرنے کا کبھی نہیں سوچ سکتی۔ اس امر میں اک ماں کا کردار بہت اہم ہے کیوں بیٹی ماں کے قریب ہوتی ہے۔اور نہ سمجھ عورت اپنا گھر اس زمرے میں آ کر برباد کر لیتی ہے کہ وہ اپنی ماں کا حکم مان رہی ہے۔ کیونکہ اک بہو کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس کے محرم کے عزیزواقارب اور دوست احباب کا حلقہ موجود ہے۔ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ تاریخ گواہ ہے اگر کوئی کسی اپنے سے جدا ہوا ہے تو خوشی اسکا مقدر نہیں بنی۔
مشرقی معاشرے میں بہو اپنا حق جتاتی ہے اور ساس نند اپنا مگر دونوں ہی اپنے اپنے فرائض سے انجان ہوتی ہیں۔ بہو اگر بیٹی اور ساس نند اگر ماں اور بہن بن کر رہیں تو یہ معاملہ حل ہو جائے۔اکثر مشرقی عورتوں کو گلہ کرتے دیکھا گیا ہے کہ شوہر اپنی کمائی کا کچھ حصہ بہن بھائیوں پر لٹا رہا ہے اور اگر یہی کام انکا اپنا بھائی کرے تو صدقے واری جاتی ہیں۔ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے عورت خود پسند بھی ہے اور حقِ ملکیت رکھنے والی بھی۔
اسی طرح داماد کا ببیٹی کو خوش رکھنا قابلِ تعریف اور بیٹے کا بہو کو خوش رکھنا قابلِ مزمت گردانہ جاتا ہے۔ اس اعتبار سے عورت میں شراکت داری نہیں۔ حلانکہ شراکت بہت سے مسائل کا حل ہے۔ اس رشتہ میں منسلک سب افرادکو اپنے حقوق و فرائض سر انجام دینے چاہیئے