بڑھاپا پسند امت سے جوانی پسند امت تک
ڈاکٹرمحی الدین غازی
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر مولانا سلمان حسینی کا ایک مکتوب عام ہوا۔ یہ مکتوب ندوہ کے ناظم مولانا رابع حسنی کے نام لکھا گیا تھا، جس میں بڑے ادب اور سلیقے سے مولانا کی پیرانہ سالی اور ضعیف العمری کے حوالے سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ اپنی سرپرستی میں ندوہ کی نظامت کا یہ منصب کسی اور کے حوالے فرمادیں۔ یہ مکتوب ادب واحترام اور جرأت وبے باکی سے آراستہ ایک شاہ کار ہے۔
تاہم اس مکتوب میں میرے لئے ایک بات حیران کن ہے، وہ یہ کہ مولانا نے ندوہ کی نظامت وغیرہ کے لئے جو نام تجویز فرمائے وہ سب نام ان بزرگوں کے ہیں جو خود اسی برس کے آس پاس کے ہیں۔ جیسے مولانا سعید الرحمن اعظمی، مولانا تقی الدین ندوی اور ڈاکٹر محسن عثمانی۔
یہ بات بہت اچھی ہے کہ مولانا سلمان حسینی نے کسی منصب کے لئے خود اپنا نام اشاروں میں بھی پیش نہیں کیا، یہی ان کے شایان شان بھی ہے۔ لیکن یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ مولانا محترم کی نگاہ ایسے لوگوں کی طرف کیوں نہیں گئی جو ابھی جوانی اور پختگی کی عمر سے پیری اور ضعیفی کی عمر کو منتقل نہیں ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بڑھاپا ہمارے دل ودماغ میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ اب بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ہمیں کسی اعلی اور اہم منصب کا اہل نظر ہی نہیں آتا ہے۔
حال ہی میں جماعت اسلامی ہند کے امیر کا انتخاب عمل میں آیا، اور پینتالیس سال کے محترم سعادت اللہ حسینی کو امیر منتخب کرلیا گیا۔ اس موقع پر سوشل میڈیا میں بے شمار لوگوں نے بے حد خوشی کا اظہار کیا کہ ایک نوجوان کو امیر جماعت بنادیا گیا، بہت سے لوگوں نے مسرت کے بجائے خدشہ ظاہر کیا کہ نوجوان قیادت کہیں اس بھاری بوجھ کو سنبھال نہیں سکے۔
مجھے حیرت اس بات پر ہورہی ہے کہ پینتالیس سال تو جوانی کے بعد کی پختگی کی عمر ہے۔ یہ تو اپنے بچوں کی شادی کرکے دادا اور نانا بن جانے کی اور دو نسلوں کی ذمہ داری اٹھانے کی عمر ہوتی ہے۔ اسے نوجوانی اور ناتجربہ کاری کی عمر بتانا نہایت تعجب خیز بات ہے۔ نوجوانی تو تیس سال تک پہونچتے پہونچتے دم توڑ چکی ہوتی ہے، اس کے بعد پھر جوانی اور پختہ سنی کا دور شروع ہوتا ہے۔
مولانا مودودی جماعت اسلامی کے بانی امیر تھے، ان کی عمر اس وقت چالیس سال سے کم تھی، مولانا ابواللیث ندوی رحمۃ اللہ علیہ جماعت اسلامی ہند کے پہلے امیر تھے، ان کی عمر اس وقت قریب پینتیس سال تھی۔ مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ جب ندوہ کے ناظم ہوئے تو ان کی عمر قریب سینتالیس سال تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑے بوجھ اٹھانے کی اصل عمر یہی ہوتی ہے۔ امت کی تحریکوں اور امت کے اداروں کی قیادت کے لئے اسی عمر کے افراد کو تلاش کرنا چاہئے۔
سوچنے کی بات ہے کہ پہلے ان عظیم تحریکوں اور اداروں کے لئے پختہ سن اور جواں سال لوگوں کو اہل سمجھا جاتا تھا اور اس پر کسی کو نہ کوئی حیرت ہوتی تھی، نہ بڑھا ہوا اظہار مسرت ہوتا تھا، نہ ذرا خدشہ ہوتا تھا اور نہ کوئی بے چینی ہوتی تھی۔ لیکن خاص اس دور میں یہ بات اس قدر عجیب کیوں ہوگئی کہ کہیں اس کے ہونے کا تصور ہی ختم ہوگیا، اور کہیں اس کے ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔
مولانا ابواللیث ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے بڑھاپے تک جماعت اسلامی کے امیر رہے، اور صرف صلاحیت وصالحیت کی بنیاد پر ہر میقات میں لوگوں کے اصرار کے ساتھ منتخب کئے جاتے رہے۔ ان کی پیرانہ سالی کے بعد بوڑھے لوگوں کی امارت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور پیرانہ سالی سے گزرتے ہوئے چار بہت اچھے لوگوں کا انتخاب ہوا۔ میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ ان چاروں میں سے ہر کوئی اس قدر باصلاحیت تھا کہ اگر وہ بڑھاپے سے پہلے امیر ہوتا تو اس کی کارکردگی بہت اعلی ہوتی، اور وہ جمود کے کسی سائے کو قریب سے گزرنے نہیں دیتا۔ لیکن اس کے لئے ضروری تھا کہ جماعت میں صرف صالحیت اور صلاحیت کو ہی نہیں دیکھا جاتا بلکہ جواں سال قیادت کی ضرورت اور پیرانہ سالی کے تقاضوں کا خیال بھی رکھا جاتا۔
یہ بات خاص طور سے اس وقت کہنا اس لئے ضروری ہے کہ جماعت میں اگر طویل سلسلے کے بعد ایک بار پھر جواں سال امارت میسر آئی ہے، تو یہ صورت حال آگے بھی برقرار رہنا چاہئے۔ یکے بعد دیگرے جواں سال اور تازہ دم قائدین آتے رہیں، اور وقت کے ساتھ ساتھ وہی پہلی صورت حال پیدا نہیں ہوجائے، جو مولانا ابواللیث ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے پیرانہ سالی تک امیر رہ جانے سے پیدا ہوئی۔ جواں سال قیادت جماعت کی تاریخ کا انوکھا واقعہ نہیں رہے، بلکہ جماعت کی تاریخ کی سنہری روایت بن جائے۔
اگر ندوہ میں بھی مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرانہ سالی سے قبل ہی مولانا رابع ندوی ناظم ندوہ ہوجاتے، تو شاید مولانا رابع ندوی بھی اپنی پیرانہ سالی سے قبل ہی کسی جواں سال شخصیت کو آسانی سے ندوہ کی نظامت حوالے کردیتے۔ بہرحال ارباب ندوہ کو چاہئے کہ وہ اپنی پرانی روایت کو تازہ کرتے ہوئے ایک بار پھر کسی صالحیت اور صالحیت سے مالا مال جواں سال ناظم کی جستجو کریں۔
جماعت اسلامی اور ندوہ ملت اسلامیہ ہند کی دو مثالیں ہیں، دونوں سے راقم کو تعلق خاطر ہے۔ اس تحریر کا اصل مقصود یہ ہے کہ ایک تصور عام ہونا چاہئے، ملت کی تحریکوں اور اداروں میں، پیرانہ سالی سے قبل ہی امارت ونظامت کو منتقل کرتے رہنے کا، تاکہ تمام تحریکوں اور اداروں کو تازہ دم اور جواں سال قیادت میسر آتی رہے۔ بلاشبہ علمی سرپرستی اور فکری رہنمائی کے لئے عمر اور صحت کی کوئی قید نہیں ہے، اہل علم وفضل کی سرپرستی اور رہنمائی تاحیات ملنی چاہئے۔ لیکن امارت وقیادت اور ادارت ونظامت جیسے فرائض کی بہتر انجام دہی کے لئے صحت اور جوانی کی بہت اہمیت ہے۔