ضلع بیدر سے

اپنی محنت کی کمائی فضول کاموں میں نہیں، اولاد کی تعلیم وتربیت پرخرچ کریں: مفتی افسرعلی ندوی

بیدر: 19/فروری (اے این ) مفتی افسر علی نعیمی ندوی نے جامع مسجد موقوعہ مقابر سلاطین بہمنیہ میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایسے معاشرہ میں تشریف لائے جہاں ہر قسم کی برائیاں موجود تھیں، شرک و کفر، بت پر ستی، ظلم و زیادتی، فحاشی، زنا کاری اور شراب نوشی عام تھا۔ لیکن رہتی دنیا تک کی انسانیت کو سب سے پہلی دعوت بذریعہ وحی ”تعلیم“ کی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر اس چیز کے بارے میں علم حاصل کر نے کا حکم دیا ہے جس کو اس نے پیدا کیا، اس میں علوم عصریہ بھی شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے تمام دشواریوں کے باوجود مکہ میں دار ارقم کو تعلیم کا مرکز بنایا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اپنی قیام گاہ کی تعمیر سے پہلے مسجد نبوی اور صفہ کی تعمیر کرائی، صفہ درس گاہ نبوی تھا۔ جنگ بدر کے قیدیوں کا فدیہ دس دس بچوں کو تعلیم دینا مقرر کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد خدا وندی ہے تم میں سے اللہ ایمان والوں کے اور ان کے جنہیں علم دیا گیا ہے درجے بلند کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس امت کی مثال چار لوگوں جیسی ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال اور علم عطا کیا ہو، تو وہ اپنے علم کے مطابق اپنے مال میں تصرف کرتا ہے، اس کو حق کے راستے میں خرچ کرتا ہے، ایک وہ شخص جس کو اللہ نے علم دیا اور مال نہیں دیا، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی ایسے ہی کرتا جیسا یہ کرتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں اجر میں برابر ہیں، ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ نے مال دیا لیکن علم نہیں دیا، تو وہ اپنے مال میں ناحق خرچ کرتا ہے،ایک شخص ایسا ہے جس کو اللہ نے نہ مال دیا اور نہ علم، تو وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں گناہ میں برابر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے علم کی دو قسمیں بیان کی ہیں ایک علم نافع اور دوسرا علم غیر نافع، آپ ؐ نے دعاؤں میں علم نافع کا سوال کیا ہے اور علم غیر نافع سے پناہ مانگی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اکثر عصری علوم علم نافع کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسلام میں علم طب، انجینئرنگ، علم قانون، معاشیات، ادب و صحافت اور مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنے کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے۔ حکومتی سروے کے مطابق مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ تنزلی کے راستے پر گامزن ہے، مسلمانوں کا %69 طبقہ دسویں کے بعد تعلیم منقطع کر دیتا ہے، %3 سے کم لوگ ہی سول سرویسس کے لیے کوشش کرتے ہیں، تمام میدانوں میں ہی مسلمانوں کی تعداد نہ کے برابر ہے۔ تعلیم ہی انسان کو قعر مذلت سے نکال کر ثریا تک پہنچاتا ہے۔تعلیم پر خرچ کرنے کے بجائے ہم شادی بیاہ، بچوں کے بسم اللہ، ختنہ اور خود ساختہ رسم و رواج میں پانی کی طرح پیسے بہاتے ہیں، ضرورت پڑی تو سودی قرض لینے میں بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔

متوسط درجے کے لوگ یہ عہد کرلیں کہ ہم اپنی محنت کی گاڑھی کمائی فضول خرچی میں صرف نہیں کریں گے بلکہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کریں گے تو انہیں اعلیٰ تعلیم سے ضرور آراستہ کر سکتے ہیں۔اس وقت ہم سب کو اپنا اولین فریضہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنے بچوں کو اچھی سے اچھی اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائیں، تاکہ وہ ملک و ملت کے لیے مفید ثابت ہوں۔ تعلیم کے دیگر شعبوں میں اپنا مقام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر سول سرویسس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر اہم رول پلے کرنے کی کوشش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!