ریاستوں سےعلاقہ کلیان کرناٹککرناٹک کے اضلاع سےمہاراشٹرا

خادِمانِ اُردو فورم، شولاپور کے زیرِاہتمام جلسہ یادِرفتگاں کا کامیاب انعقاد

عبدالاحد ساز،صاحب علی،گلزار دہلوی،مجتبیٰ حسین، شمس جالنوی، راحت اندوری،اشوک ساحل، مظفر حنفی، شمس الرحمٰن فاروقیاور شولاپور و ملک بھرکی مرحوم ادبی شخصیات کو خراج عقیدت 

گلبرگہ: 18/فروری (ایچ ایس) ضلع گلبرگہ کے پڑوسی شہر شولاپور مہاراشٹرامیں خادمان اردو فورم، سولاپورکے زیرِ اہتمام چھٹے عشرہ اردو کے تحت 2020 میں ملک کے نامور اردو ادباء،شعرا، ماہرین تعلیم انتقال کر گئے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔فورم کے سکریٹری ڈاکٹر شفیع چوبدار نے جلسہ کی غرض وغایت اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 2020 یہ سال نہایت تکلیف دہ رہا سو سے زائد اردو ادب کے جواہر پارے،ماہر ادیب وشعرا، نقاد، محقق ہر قسم کے اصنافِ ادب اب اس جہان میں نہیں رہے سب کے لئے دعائیہ کلمات پیش کئے۔ خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے ادبی،تعلیم، سماجی خدمات کو سراہا اور وقت کی قلت کی وجہ سے چنندہ حضرات کے ویڈیو لائیو کاسٹ بھی کئے گئے۔ سراج سولاپوری نےعبدالاحد ساز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم عبدلاحد ساز کی رخصتی صرف ایک شخص کی رخصتی نہ تھی بلکہ ایک ادیب، نقاد، شاعر، استاد کے ساتھ ایک شفیق انسان کی رخصتی تھی۔ مرحوم کے شعر پڑھنے کا انداز بڑا پیارا تھا۔ عبدالاحدکے چند اشعار بھی سنائے۔

آہ جس شخص نے کتنوں کو سنبھالے رکھا   
آج کاندھے پہ اسے چار سنبھالے ہوئے ہیں   
کچھ لمحوں کے غم کے دائرے کے دائرے پھیلے ہیں   
پھر پانی پانی سے مل جاتا ہے   
دائمی فرقت کا ہر زخم چار دنوں میں بھر جاتا ہے

شعر وشاعری میں اصلاح لینے کا ان کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ ان کے جانے سے ادبی دنیا کو بیحد نقصان ہوا اس کی تلافی کرنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر صاحب علی کے تعلق سے قمر صدیقی صاحب نے خراج پیش کی اور کہا کہ مرحوم ڈاکٹر صاحب علی ایسی جامع شخصیت تھی جنھوں نے اردو زبان وادب کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔اپنی کاوشوں سے، اپنی تگ ودو کے ذریعے ممبئی یونیورسٹی کے اردو شعبہ کو بڑے بڑے یونیورسٹیوں کے مدِ مقابل لاکر کھڑا کیا۔اردو ادب کے تعلق سے ان کی مختلف کوششوں، قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے کم عمری میں اس دنیا سے چلے اردو ادب درس وتدریس کا بہت نقصان ہوا اس بات کا غم کے ساتھ اظہارکیا۔ بزرگ شاعر گلزار دہلوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پونہ مشہورو معروف صحافی،شاعر اور محقق نذیر فتح پوری نے کہا کہ مرحوم گلزار دہلوی قومی یکجہتی کی عمدہ مثال تھے اور اس بات کو اپنی شاعری میں پیش کرکے سیکولر شاعر ہونے کا بین ثبوت پیش کیا۔روحانی طور پر نظامیہ سلسلہ سے وابسطہ تھے۔گلزار دہلوی کہا کرتے تھے۔

تیری ذات ذاتِ قدیم ہے   
تیری ذات ذاتِ عظیم ہے   
علم، فن وادب کا ضیا چھوڑ جاؤں گا   
اردو کی خوشبوؤں کا جہاں چھوڑ جاؤں گا  

یہ کہتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک عمدہ تہذیب، ایک فکر، عمدہ یکجہتی کی مثال اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ طنز و مزاح کی بڑی شخصیت گلبرگہ کرناٹک سے ماجد داغی صاحب نے مرحوم مجتبی حسین کے تعلق سے یہ کہتے ہوئے خراج عقیدت پیش کی کہ شاہد صدیقی کے بعد روز نامہ ”سیاست” حیدرآباد میں تیر و نشتر کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔زندہ دلانِ حیدرآباد سے  اور اولین تصنیف ”تکلف برطرف” سے بھی خوب شہرت حاصل کی۔اردو کل ہند کانفرنس میں اپنے طنز ومزاح  نگاری سے بھی  مجتبی حسین نے خوب داد وتحسین حاصل کی۔  دہلی کے ادبی حلقوں میں جاکر ایک وسیع تر حلقہ بنایا اوربے حد مقبول ہوئے۔ ماہ نامہ شگوفہ حیدرآباد میں اپنی تخلیقات، تکلف برطرف،آدمی نامہ،چہرہ در چہرہ،جاپان چلو جاپان کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر انھیں شہرت حاصل ہوئی۔ادبی خدمات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملی۔قومی سطح کا ” پدم شری” ایوارڈ سے بھی آپ کو نوازا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محی الدین صاحب (پربھنی) نے مرحوم شمس جالنوی کو یا دکرتے ہوئے کہا کہ ولی اور سراج اورنگ آبادی کی روایات کو انھوں نے ان روایات کی پاسداری اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ان کی غزلوں میں شاعری میں صداقت اور حقیقت کی عکاسی نظر آتی ہے۔
شامِ غم کون تھا راز دارِ وفا   
چاند تاروں نے بھی مجھ سے پردہ کیا   
زندگی کے حسین راہوں میں   
آنسوؤں کے چراغ جلتے ہیں 
ہائے یہ کیسا دورِ حاضر ہے   
خون پی پی کے لوگ پلتے ہیں 

نغمگی، ترنم ان کی شاعری کی خاص خوصیت تھی۔عالمی شہرت یافتہ شاعر راحت اندوری کو خراج پیش کرتے ہوئے بھوپال سے ڈاکٹر مہتاب عالم صاحب نے کہا کہ کرونا سے زیادہ نقصان اردو کا ہوا ہے۔ مرحوم راحت اندوری مصور کی حیثیت سے اپنی زندگی کا سفر جاری کیا اور بعد میں مصوری شاعری میں ڈھل گی۔مرحوم راحت صاحب مدرس بھی تھے۔اردو اور راحت اندوری ایک دوسرے کے لازم و ملزوم تھے۔  کبھی حالات سے حکومت سے،وقت سے کبھی سمجھتا نہیں کیا، بے خوف بے باکی بے لاگی اور اپنے منفرد لب ولہجے سے ہمیشہ یاد رہیں گے۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں   
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے   
جن چراغوں سے تعصب کا دھواں اٹھتا ہو   
ان چراغوں کو بجھا دو تو اجالے ہوں گے

یہ کہہ کر اپنی بات ختم کی۔

سولاپور کے صوفی شاعر ناصرالدین علندکر نے مرحوم اشوک ساحل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اشوک ساحل شاعری کی دنیا کا معتبر نام ہے ان کی شاعری عام فہم، پُرفکر اور عوامی مسائل سے مزّین ہے۔ اس تعلق سے الندکر صاحب نے اشوک ساحل کے چند اشعار پیش کیے۔ میری اردو کو دہشت گرد جس نے بھی کہا ہوگا   
اسے تو اپنی ماں کا دودھ بھی کڑوا لگا ہوگا   
پرندہ ہو چرندہ کہ انسان ہو   
محبت ہی بارش چاہتا ہے   
انا مجبور کردیتی ہے ورنہ   
کسی سے کون رنجش چاہتا ہے   
ذکرِ رسولِ پاکے ہے جب سے زبان پر   
رحمت برس رہی ہے میرے خاندان پر

مظفر حنفی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے معلم ریاض ولسنگکر صاحب۔(سولاپور) کہا کہ مظفر حنفی اردو ادب میں خاصااونچا مقام رکھتے ہیں، ماہرِ لسانیات، بہترین شاعر،محقق، نقاد تھے۔انھوں نے دو نسلوں کو تربیت دی ہے۔ادب کے ہر شعبے میں طبع آزمائی کی  افسانے،سفر نامے لکھے۔ادبِ اطفال کے لئیبہت کام کیا۔دس شعری مجموعے لکھے۔سولہ کتابوں کے ترجمے کیے تند دہی کے ساتھ پوری زندگی اردو زبان کے لئے صرف کی۔شعری افق پر ان کا نام ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ معروف انشاپرداز،نقاد، مترجم ڈاکٹر یحیی نشیب نے مرحوم شمس الرحمن  فاروقی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے ”دورِ فاروقی”  ختم ہو چکا ہے وہ سرکاری نوکری میں اعلا عہدہ پر فائز تھے لیکن اردو اور انگریزی زبان میں وہ ماہر تھے۔ اردو شاعری کے ساتھ دیگر اصنافِ سخن کی بقاء کے لئے اپنی پوری زندگی صرف کی۔ مقدمہ شعر وشاعری لکھ کے جدیدیت کا طریقہ پیش کیا۔اردو ادب کو نئی شاہراہ پر لا کر کھڑا کیا۔ ”داستان” پر ان کی تحقیق کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

اس  موقع پر مرحوم محب سولاپوری، مرحوم ڈاکٹر غلام دستگیر، مرحوم عبدالقیوم علیم سر،جن کا یو ٹیوب پر پہلے ہی سے خراج عقیدت پیش کیا تھا یاد کیا گیا۔ سولاپور شہر کی ادبی، تعلیمی، سماجی،سیاسی  شخصیات کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا جن کی خدمات سولاپور شہر کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان شخصیات میں، مرحوم یونس بھائی شیخ، مرحوم اسماعیل جمعدار،مرحوم بھو لوں میاں سالار، مرحوم مرتضی امام صاحب کا بالترتیب انور کمیشنر صاحب، محترمہ عائشہ جمعدار صاحبہ، زاہد علی خان صاحب اور ڈاکٹر عبدالرشید صاحب نے سولاپور شہر کے ان مرحومین کے تعلق سے تفصیلی معلومات دیں۔ آخر میں فورم کے صدر وقار احمد شیخ صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!