نیا سال کیوں منائیں!
تحریر:محمد اورنگ زیب مصباحی گڑھوا جھارکھنڈ
رب قدیر کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے جس نے ہمیں زندگی اور اس میں بہت ساری نعمتوں سے نوازا، وہ اتنا کریم ہے جو انسانوں کو دن رات بدکاریوں عیاشیوں اور خود اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کے باوجود انہیں مہلت پر مہلت دیتا ہے ، مگر انسان ہے کہ اس مہلت کو اپنی ترقی سمجھتا ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لاکھ برائیوں کے باوجود بھی اس پر عذاب نازل نہیں ہوتا تو وہ اس مہلت کو غنیمت سمجھتا اور توبہ کرتے ہوئے اپنی زندگی بھر میں کیے گناہوں اور خطاؤں کا احتساب کرتا، مگر نت نئے خرافاتی فنکشن اور محفلوں میں مگن ہے۔
چند ہی دنوں میں انگریزی کیلنڈر کے اعتبار سے نئے سال کا آغاز ہونے والا ہے یعنی سنہٕ2020 کا اختتام، اس کے ساتھ ہی سنہٕ2021 کا آغاز ہو جائے گا اللہ تعالی 2021 کو تمام امت مسلمہ کے لئے صحت و عافیت ، امن و سلامتی کے ساتھ خوشگوار زندگی اور حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے ۔ آمین
کسی سال کا اختتام یا کسی سال کا آغاز نہ تو لائق مبارکباد ہے اور نہ ہی کسی قسم کی خوشی کا باعث، مگر دور اندیش اور اعلیٰ افکار کے حاملین افراد کے لئے ایک گنا قابل افسوس ضرور ہے، کیونکہ ہماری قیمتی زندگی (جس سے ڈھیر ساری امیدیں اور اسی قدر خواہشات وابستہ ہیں) کا ایک اور قیمتی سال ختم ہوگیا۔
دنیا میں جتنی بھی قومیں ہیں سبھی کے رہنے سہنے کا انداز مختلف ہیں اسی طرح ان میں ڈھیر سارے تیوہار اور مسرت و شادمانی کے بھی مختلف رنگ و ڈھنگ ہوتے ہیں، کوئی اپنے کسی کہانی کے پس منظر میں خوشی مناتا ہے، تو کوئی اپنے مذہبی بزرگوں کی یادوں میں شادیانے بجاتا ہے، کوئی اپنے خوشیاں منانے کے اطوار کے ذریعے قوم کے لیے کوئی پیغام دے جاتا ہے جس سے بسااوقات نیکی کی ترغیب اور برائیوں کی جڑ کاٹنے کی دعوت ملتی ہے، مگر فی زمانہ جیسے جیسے انسان ترقیاتی منازل عبور کیے جا رہا ہے اس کے پاس دولت وثروت کی فراوانی ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے انسان لاکھ ترقیوں کے باوجود خسارے کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے جا رہا ہے۔ اصل میں جہاں محض خوشی منانا چاہیے تھا اپنے تیوہار اور فنکشن کے ذریعے یا تہذیب و ثقافت کے ذریعے اپنی نیک نامی ثابت کرنا تھا اس کی جگہ لوگوں کے فسادی ذہن اور ان میں بگاڑ آنے کی وجہ سے وہ خرافات ، بے حیائی،فضول خرچی اور فساد بھرے فنکشن ، محفلیں اور تہوار منائے جاتے ہیں ۔
انہیں فنکشن اور محفلوں میں سے ایک محفل یا ایک فنکشن نئے سال کا جشن بھی ہے جو کہ عیسائی تہذیب و ثقافت کا حظ وحصہ ہے اور انہیں کا ایجاد بھی، عیسائیوں میں تقریبا 700 سال قبل مسیح سے یہ روایت چلی آرہی ہے کے انگریزی سال کے اختتام پر یا اس کے آغاز پر خوشیاں مناتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بتائی جاتی ہےکہ 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اس کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے اسی مناسبت سے نئے سال کے آنے تک یہی خوشی کا ماحول رہتا ہے ، جبکہ دوسری وجہ محض یکم جنوری اور نئے سال کی خوشی منائی جاتی ہے اور بھی کئی وجوہات ہیں مگر ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ کس وجہ سے اور کیوں منائی جاتی ہے بلکہ ہمارا موضوع اس میں ہونے والے خرافات، بدکاری ،بے حیائی اور اسراف سے بچنا اور بچانا ہے۔
نئے سال کے فنکشن میں کیا ہوتا ہے
نئے سال کے فنکشن میں سڑکوں اور گلیوں یا پارک اور ہوٹلوں یا کم از کم اپنے گھر کو ہی رنگ برنگی لائیٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے ، جس میں تقریبا اربوں کھربوں یا جشن منانے والوں کی حیثیت کے کے اعتبار سے بہت زیادہ رقم بربادی کے حوالے ہو جاتے ہیں، پھر 31 دسمبر کے رات میں بارہ بجنے کا بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے اور 12بجتے ہی ڈھیر سارے پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں اور کیک کاٹ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیا جاتا ہے ہر چہار جانب ہیپی نیو ایئر کی صدائیں گونجتی ہیں ، خوب آتش بازیاں ہوتی ہیں مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام ، ناچ گانے ڈانس کا بھرپور انتظام کے ساتھ شراب و شباب کا مکمل نظم و نسق ہوتا ہے، جس میں کہیں آپسی رضامندی سے بدکاریاں اور زناکاریاں انجام پاتے ہیں، تو کہیں جبرا چھیڑخوانی سے لے کر بلاتکاری تک کے واقعات سرزد ہوتے ہیں۔ بھلے ہی اس کا ایجاد عیسائی تہذیب و ثقافت کا حظ وحصہ ہوں مگر دورحاضر میں تقریبا سارے غیر مسلم اپنی تہذیب وارتقاء بیچ کر عیسائی تہذیب میں ڈھل کر بڑے خوش نظر آتے ہیں اور کچھ مسلمان تو عیسائی تہذیب جیسی خطرناک بلا سے محفوظ ہیں مگر بعض مسلمان بھی اس کے زد میں آ چکے ہیں ہیں۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اے مسلمانو تمہارے پاس اپنا تہذیب اپنی روایا ت واقدار نہیں یا تمہارے پاس اپنا کیلنڈر نہیں؟
مسلمانو ہوش کے ناخن لو تمہارے پاس اپنی روایات و تہذیب ہیں جو ہر موڑ پر بھلائی کی ترغیب اور بدکاریوں کے خاتمے کی دعوت دیتی ہیں اور مغربی تہذیب سے کہیں زیادہ عظیم ہے، مگر کس قدر شرم کی بات ہے کہ عیسائی کی ایجاد نئے سال کی محفل میں مسلمان شرکت کے خواہاں ہیں
کیا تمہیں معلوم نہیں؟ کہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سرمائے کی حفاظت کے لئے فرمایا کہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے ، تو کہیں یہ فرما کر لایعنی باتوں سے منع فرمایا آدمی کے اسلامی خوبی یہ ہے کہ وہ وہ فضول چیزوں سے بچے (ترمذی)
یوروپین اور غیر مسلموں کو تو چھوڑیئے مسلم ممالک کے لبرل خیال افراد بالخصوص عرب ممالک پچھلے کچھ سالوں سے اس جشن میں پیش پیش نظر آتے ہیں ان کے حرکات دیکھ کر انگشت بدنداں ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس موقع پر یو اے ای (UAE)کی اہم ترین عمارتوں کی لائٹنگ اور وہاں آتشبازیاں جس انداز سے کی جاتی ہیں قابل مذمت اور افسوس ناک ہے،اس کے تمام ڈیزائن اور منصوبے کی ذمہ داری یونائیٹڈ کنگڈم اور دوسرے مغربی ممالک اور ان کے ماہرین سنبھالتے ہیں۔اور پھر اربوں کھربوں روپے چند منٹوں میں مغربی ممالک یا ان کے ماہرین کے جیب کی نذر ہو جاتی ہیں،ایک موقع پر صرف اس جشن میں70000 ایل ای ڈی بلب اور تقریبا پانچ ٹن آتشبازی کے سامان اور سیکڑوں ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں ۔
ذرا سوچو مسلمانو اور ان کے حکمرانو اگر اس قدر بڑے رقم اور کثیر سرمائے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور مسلم ممالک کے اتحاد میں صرف کئے ہوتے یا اپنے ہتھیار اور میڈیکل سائنس یا دیگر تجارتی اور غیر تجارتی شعبوں میں صرف کئے ہوتے تو آج قوم مسلم پوری دنیا کے ظالموں کو قدموں میں رکھتی مگر اس کے برعکس ان لبرل خیال مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کا مغربی تیوہاروں میں پیش قدمی اور ان میں اسراف اور مسلموں سے عدم توجہی کی بنا پر قوم مسلم انحطاط کا شکار ہے اور ظالموں کے پنجوں تلے جکڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشادفرماتاہے
ترجمہ : اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
یقینا جو مغربی تہذیب و تمدن کے زد میں ہیں وہ شیطان کے پیروی کرنے والے ہیں ۔
تم کیوں مناتے ہو نیاسال ؟
نئے سال کی خوشی مناتے ہو تو یاد رکھو ہمارا اسلامی نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ہمارے تمام شرعی امور اسی سے وابستہ ہیں، اگر یہود و نصاریٰ کی پیروی کرتے ہوئے یہ کام کرتے ہو تو یہ راستہ شیطان کا ہے ، اور اگر شراب یا عورتوں یا دیگر بے حیائی میں مچلنے جاتے ہو تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلم کا فرمان ہے ترجمہ : دنیا آخرت کی کھیتی ہے(مقاصد الحسنۃ)یاد رکھو !جب تم پیدا ہوتے ہو تو تمہارے اعمال نامہ ایک کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اور جیسے جیسے اعمال کرتے ہو اسی طرح وہ بھرتا جاتا ہے تو کوشش اسے نیکیوں سے بھرنے کی کرو ورنہ آخرت میں بہت پچھتاؤگے ، دنیا میں جیسی کھیتی کرو گے آخرت میں ویسی ہی جزاء تمہیں ملے گی اگر یونہی عشق و سرور اور مستیوں میں لگے رہے تو یقینا تمہاری آخرت بہت المناک ہوگی ۔
موج نہیں، نیو ایئر میں احتساب کریں
کوئی بھی ادارہ، تنظیم ، تحریک یا اہم کمپنیاں سب کا اصول اور ضابطہ یہی ہے کہ سال کے اختتام پر یا نئے سال کی شروعات میں سالِ گذشتہ کا احتساب کرتے ہیں کہ پچھلے سال کیا پایا اور کیا کھویا اور کس وجہ سے ایسا ہوا پھر آئندہ سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی کوئی بھی غلطی نہ کی جائے جس سے خسارہ کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اس لیے ہمیں بھی نئے سال کا یا سال کے اختتام پر اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم نے سال بھر میں کتنے نیک اعمال کیے اور کتنے بد اعمال کیے اور آئندہ ہمیں بداعمالیوں یا کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا جس سے خسارے کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ترجمہ: تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے (ترمذی)۔ اس لیے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہماری قیمتی زندگی سے ایک اور سال ختم ہوگیا اور ہم ہیں کہ جشن منا رہے ہیں ، عیاشیاں کررہے ہیں مبارکباد دے رہے ہیں۔ ہم اپنی غلطیوں پے جتنا روئیں کم ہیں مگر ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ فی الحال اورآئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہ سکتے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں جو کرنا چاہیے وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ہم آئندہ سال میں مسلمانوں کی صحت و سلامتی اور ان کی ارتقاء کی دعائیں مانگ سکتے ہیں اور ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے