گرونانک جی محمدﷺ کو ہی اپنا آئیڈیل مانتے تھے اس لیے سکھ مذہب کی تعلیمات اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں: مورّخ ڈاکٹر تارا چند
ساجد محمود شیخ میراروڈ
مکرمی !
اس سال ۳۰ نومبر کو گرو نانک جی کی جینتی ہے ۔گروجی توحید کے علمبردار تھے،انہوں نے اپنے کلام کا آغاز اونکار سے کیا تھا جس کا مفہوم کلمہ طیبہ کا ملتا جلتا ہے ۔ انہوں نے ساری زندگی توحید و مساوات کا درس دیا تھا ۔مشہور مورّخ ڈاکٹر تارا چند نے اپنی کتاب ہندو تہذیب پر اسلامی اثرات میں سکھ مذہب پر اسلام کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ گرونانک جی حضرت محمدﷺ کو ہی اپنا آئیڈیل اور نمونہ مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تعلیمات فطری طور پر اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں ”
حقیقتاً گرو نانک جی اسلام سے بہت قریب تھے ۔ انہوں نے عربی زبان میں شاعری کی تھی اور اپنے آپ کو مومن کہا تھا۔وہ مکہ بھی گئے تھے جنم ساکھی کے مطابق انہوں نے ایک سال مکہ میں گزارا۔ گرو جی نے جنم ساکھی میں قرآن مجید کو ہی قابلِ عمل کتاب قرار دیا تھا ۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں بڑھتی فرقہ پرستی اور فسطائیت سے مقابلہ کے لئے مسلمانوں کو سکھ برادری سے بھائی چارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ گرو نانک جی کی تعلیمات اور اسلام کے نظریہِ توحید میں یکسانیت ،سکھ برادری اور ملّتِ اِسلامیہ میں اتحاد کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں ۔ شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم نانک میں گرو نانک جی کو ان مصرعوں سے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے
؎ پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مردِ کامل نے جگایا خواب سے