خواتینسماجیمضامین

عورت: ازدواجی تعلقات میں عدم تحفظ کا شکار کیوں!

شاہانہ خانم حیدرآباد

ازواجی تعلقات: دلوں میں فرق آجائے تو تعلقات نبھائے نہیں جاتے بلکہ گھسیٹے جاتے ہیں۔

جب یہ زندگی اوروہ زندگی سب اسی کی امانت ہیں توکرنا بھی وہی چاہیے جوخدا کی مرضی ہوانسان کا اختیار نہ سانس پرہے نہ تقدیرپرلیکن اگراسکی مرضی میں اپنی مرضی شامل کرلی جائے توراحت مل جاتی ہے دعا یہ ہونی چاہیے کہ اللہ اپنی رضا کوہماری رضا بنادے اورہم سے وہ کام نہ کروائے جسے وہ پسند نہیں کرتا۔

زندگی سے موت تک کئی راستے ہیں جس راستے پر بھی جاؤ، اس کی کچھ راحتیں ہوتی ہیں، اس میں کچھ تکلیفیں ہوتی ہیں، کچھ اس راہ پر چلنے کے تمغے ہوتے ہیں، کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ دراصل کوئی راہ اختیارکرلو۔ کسی راستے پرپڑجاؤ وقفہ اتنا لمبا ہے کہ مسافر کا سانس اکھڑے ہی،کھڑے……!

تعلقات کونبھانے کے لئے عہدوپیماں کی ضرورت نہیں ہوتی ضرورت ہوتی ہے وہ توبس ایک دوسرے سے مخلص ہونے، وہ تعلق چاہے دوستی کاہو،محبت کا ہو،یا احساس کا اکثر جہاں عہدوپیماں زیادہ ہوتے ہیں وہیں رشتے جلدی زوال پذیر ہوتے ہیں۔”جن کو نبھانا ہوتا وہ ناتو بڑی بڑی قسمیں کھاتے اور نہ ہی ہربات کوجتاتے بس خاموشی سے نبھاتے ہیں اورمحسوس بھی نہیں ہونے دیتے کہ وہ خود کن حالات سے گزررہے“ آپ جب ان کو پکاروگے وہ آپ کے ساتھ اپ کا سایہ بن کرموجود رہیں گئے……!

عورت کا فطری حق یہ ہے کہ اسے اپنے میاں کے گھر میں تحفظ حاصل ہو، چاہے وہ عزت،جان،مال اورایمان کا ہو۔ وہ اس گھر میں رہے کر مطمئن ہو کہ اب یہ میرا گھر ہے میرا سب کچھ یہی ہے اس لئے کہ میرے شوہر نے مجھے قبول کیا ہے۔عورت بھی انسان ہے۔ یقینا اس کے اندرکمزوریاں بھی ہوں گی۔ اگر ان کمزوریوں کی وجہ سے مرداسے خشک پھول کی طرح توڑکر پھینک دے گا تو عورت کا عدم تحفظ ختم ہوجائیں گا۔ پھر وہ اس گھرکو کبھی بھی اپنا گھرنہیں سمجھے گی۔ اپنے دل کے راز نہیں بتائے گی۔ اپنے دل کی بات کا اظہار نہیں کرے گی۔ یہ اس کا حق ہے کہ اسے تحفظ ملے وہ سمجھے کہ میرا سب کچھ یہی ہے اسے اس بات کا احساس دلاجائے کہ یہاں اس کی اچھائیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اس کی کمزوریوں سے درگزرکیا جائے گا۔ وہ صحت مند ہویا بیماردونوں صورتوں میں اسے قبول کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہ وہ بیمار ہوتو کہاجائے کہ ماں کے گھرچلی جاؤ۔ ولادت کا وقت قریب آئے تو اسے ماں کے گھربھیج دیا جائے۔ خرچے آن پڑیں تو ماں کے گھر جانے کا حکم سنادیا جائے۔ اگر ایسے حالات اورایسا برتاؤ کیا جاتا ہے توعورت عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ جب تک میں ٹھیک ہوں اور میرا شوہر کی جنسی خواہشات مجھ سے پوری ہوتب تک تو میں یہاں پرہوں اوراگر میرے اندرکچھ کمزوریاں آگئیں،کچھ بیماریاں آگئیں،میری زندگی کی ضروریات بڑھ گئیں تو مجھے نظروں سے گرادیا جائے گا۔ ایسی عورت کبھی بھی مطمئن نہیں ہوتی ہے۔ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پھر ایسی عورت سے اچھے اور بہترین سلوک اورکام کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔

توعورت کا حق یہ ہے کہ اسے اپنے گھرمیں تحفظ ملے۔ اس بات کی فکر شوہر کوہونی چاہیے، ساس بھی کرے اورسسربھی کرے کہ جس بچی کو ہم لائے ہیں اسے ہم نے عدم تحفظ بھی دینا ہے اس لئے کہ کل ہماری بیٹی بھی تو کہیں جائے گی۔ اگر ہماری بیٹی کو یہ ناملے تو ہم پر کیا بیتے گی۔ مرد کیسا ہو؟ عورت کیسی ہونی چاہئے؟ ہر مرد بتاسکتا ہے مگر کیا وہ مرد جانتا ہے کہ مردکوکیسا ہونا چاہئے؟ ایک اچھا مرداورشوہر وہ ہے: جوعورت کی بڑی سی بڑی خطا، بھی معاف کردیتا ہے۔ جوحکمران بن کر نہیں۔ محافظ اورساتھی بن کر رہتا ہے۔ جوروٹی کپڑا پناہ دیکر احسان نہیں جتلاتا ہے۔ بلکہ شکر گزار نظرآتا ہے۔ جو وحشت کے گھوڑے پر سوار ہوکر عورت کی انا کی دھجیاں نہیں اڑاتا ہے۔ جوبن مانگے عورت کو محبت کے ساتھ عزت بھی دیتا ہے۔ جو اپنی انا کی تسکین کیلئے عورت کی عزت نفس کوکچلتا نہیں۔ اورجو اپنے گھرانے کی خدمت کوعورت کافرض نہ سمجھتا ہو۔ جوعورت کے ہر غم دکھ درد میں شریک ہوتا ہو۔ ہاں وہ ایک اچھا مرد ہوتا ہے وہ ایک اچھا شوہر ہوتا ہے۔

عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی وفا داری، اس کی عزت دینے میں، اس کی حکم ماننے میں کھری اترے جب وہ تمہیں اپنی زندگی سے نکال دیں اور تم اپنے دل کو چیرتی ہوئی تکلیف کے باوجود لبیک کہو! جب وہ تمہیں بنا تمہارے کسی قصور کے تمہیں اگنور کرے اور تم اس پر صبر کرلو لیکن تم سے ان کے خلاف کچھ سوچا نہ جائے، جب ان کے خلاف بولنا چاہو تو تمہاری زبان، اور جب لکھنا چاہوتو تمہارے ہاتھ بغاوت کرجائیں! جب کوئی ان کے خلاف کچھ بول جائے توتم ان کی عزت اورحرمت کی خاطر اس انسان سے لڑجاؤ، میں نے یہ سب کیا ہے، تب جاکر مجھے دل کے کسی کونے میں اطمینان محسوس ہوا ہے اس نے چھوڑدیا تو کیا ہوا، محبت میں نے بھی کی تھی، محبت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ محبت قربانیاں مانگتی ہے، کبھی روح کی، کبھی جان کی اور کبھی خواہشات کی……!!

رابطے ختم ہوجائیں،رشتے ٹوٹ جائیں توبھی محبتوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا جس طرح یادیں حافظے پرقابض رہتی ہیں اسی طرح محبت بھی دل سے دستبردار نہیں ہوتی۔ اور اگر دلوں میں فرق آجائے تو تعلقات نبھائے نہیں جاتے بلکہ گھسیٹے جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!