حالاتِ حاضرہسماجیمضامین

جمہوریت کے دشمنوں سے۔۔۔ آئین بچائیں، ملک بچائیں!

تحریر: صدیقی محمد اویس، میراروڈ، ممبئی

ایک طالب علم کا سوال : بھارت کا آیئن آج بے معنی تو نہیں!

ہمیں بچپن ہی سے اسکولوں میں اور تعلیمی اداروں میں تمہید پڑھایا جاتا رہا ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی خیال کیا کہ۔۔۔

کیا تمہید میں جو کچھ لکھا ہے، آج اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ؟

کیا ہم نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ بحیثیت شہری ہمارے حقوق کیا ہیں ؟

کہیں ہمارے حقوق کی پامالی تو نہیں ہو رہی ؟

تمہید کو انگریزی میں Preamble of the Constitution کہا جاتا ہے۔ اور یہ ہمارے آیئن کے تعارفی نوٹ Introductory Note کے طور بھی جانا جاتا ہے۔ یعنی جب ایک عام شہری تمہید کو پڑھتا ہے تو وہ یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہمارا آیئن کیا کہہ رہا ہے یا ہم سے کیا مطالبہ کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر تمہید میں انصاف، آزادی، اخوت اور مساوات وغیرہ کی بات کی جاتی ہے۔ اسی لئے ہمارا آیئن بھی مذکورہ بالا نکات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ملک ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے اور تو اور جمہوریت کا بہترین نمونہ بھی مانا جاتا ہے۔ لیکن باوجود اس کے آج ملک میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہماری جمہوریت کہیں کھو چکی ہے۔

آیئن ساز اسمبلی میں تمام مذاہب کے نمائندے شامل تھے۔ جب اسمبلی میں تمہید سے متعلق مباحثے ہوتے تو لوگ اپنے اپنے مذاہب کے متعلق تجاویز پیش کرتے۔۔۔ کوئی کہتا کہ خدا کے نام سے آیئن کی شروعات ہو تو کوئی اپنے ایشور کے نام سے شروعات کرنے کو کہتا۔۔۔ بالآخر اسمبلی میں ووٹنگ ہوتی اور یہ طئے پاتا کہ آیئن کی ابتداء ‘لوگوں’ کے نام سے ہوگی۔۔ یہاں رہنے والے باشندوں کے نام سے ہوگی۔۔۔ اور تب سے۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہید کی ابتداء ہوتی ہے۔۔۔ ہم بھارت کے لوگ۔ اب جب آیئن کی شروعات یہاں کے باشندوں سے ہورہی ہے تا آگے کی تمام چیزیں بھی شہریوں کے نام ہونا ظاہر سی بات تھی۔ اسی لئے آیئن انصاف کی بات کرتا ہے تو تمام شہریوں کے لئے کرتا ہے، جس میں سماجی، معاشی اور سیاسی۔ جب آزادی کی بات آتی ہے تو اظہار خیال کی آزادی، دین و عبادات، عقیدہ کی آزادی۔

اسی طرح مساوات اور اخوت بھی۔۔ کہ ملک میں تمام حقوق، تمام وسائل ملک کے باشندوں کے لئے مساوی ہوں، پھر چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کالے ہوں یا گورے، امیر ہو یا غریب وغیرہ وغیرہ۔ ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے اخوت اور بھائی چارے کی بات کی گئی ہے۔ مندرجہ بالا تمام نکات ایک جمہوری کی ترقی کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اور تو اور یہ تمام نکات ہم پر بحیثیت شہری عائد ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں، اب تک ہم نے آیئن اور تمہید کی بات کی۔ لیکن اب پھر سے اپنے سوال کی طرف ہوتے ہیں۔ آج ہم جس جمہوریت اور سیکولرازم کی بات کرتے ہیں وہ کہیں نا کہیں ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہماری حکومتیں اسے نیست و نابود کر رہی ہیں۔ اس بات کو بہت کھلے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت یعنی صرف دکھاوا نہیں، یا صرف روایتی انداز نہیں بلکہ ایک جمہوری ملک کے لئے یہ ضروری کہ وہ تمام شعبوں میں جمہوری نظام قائم کرے۔ چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں، یا معاشی ادارے ہوں، یا کمپنیاں ہوں، تعلیمی نظام ہو یا عوام کے مسائل ہو ان تمام میں جمہوریت و سیکولرازم نظر آئے۔

لیکن کیا آج ایسا ہے ؟

آج کا دور روایتی جمہوریت کا دور ہے !

حکومتیں، سیاسی جماعتیں سب اپنے مفاد کے لئے جمہوریت کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں انتخابات ضرور ہوتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نیتا نے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔۔۔ یا کئی ایم ایل ایز پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جا بیٹھے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خود کے لئے کوئی Ideology اور کوئی نظریہ معنی نہیں رکھتا ہے۔ یا پھر متعدد بار ایسا سننے کو ملتا کہ فلاں پارٹی سینئیر لیڈر نے پارٹی کی اعلی کمان یا پارٹی قیادت پر تنقید کر دی تو اس لیڈر کو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا اسکا اخراج ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں کانگریس کے دو معاملات منظر عام پر آ چکے ہیں۔۔۔ جیوتر آدیتیہ سندھیا اور سچن پائلٹ کا معاملہ۔ یہ تمام مسائل اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں جمہوریت کا مذاق بنایا جارہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کسی ایک خاندان کے ہاتھ میں ہے جو صدیوں سے چلتی آرہی ہے۔ کسی نئے لیڈر کو سامنے آنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ کیا یہ جمہوریت ہے ؟

اس کے علاوہ ہماری سرکاریں جس طرح چاہتی ہیں قوانین و پالیسیاں بناتی ہیں۔ کئی قوانین تو ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ غریب عوام، اقلیتی طبقات اور متوسط طبقات کو دبانے کے لئے ہی بنے ہوں۔ حال ہی شہریت ترمیمی قانون۔۔۔ جس کی ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی۔ لیکن پھر بھی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایسا ہو !

آیئن کی دفعہ 39 میں کہا گیا ہے کہ ملک میں دولت کا ارتکاز نہیں ہوگا۔ لیکن یہ افسوسناک ہے کہ آج ہمارے ملک میں معاملہ اس برخلاف ہے۔ امیر، امیر تر ہوتا جارہا ہے، غریب اور غریب ہوتا جارہا ہے۔ کیا یہ معاشی انصاف ہے ؟

علاوہ ازیں سیکولرازم کا معاملہ بھی تشویشناک ہے۔۔ تمام مذاہب کو یکساں حیثیت حاصل ہے لیکن پھر بھی ملک میں مذاہب، ذات پات کی بنیاد پر Majority Minority امتیاز برتا جاتا ہے۔ مذہب کے نام نفرت کا بازار گرم ہے، الگ الگ مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں بھڑکایا جاتا ہے اور اس طرح سوچی سمجھی سازش کے تحت دنگے تک کروائے جاتے ہیں۔ اور یہ کام کچھ شر پسندعناصر کے ذریعے باقاعدہ کروائےجاتے ہیں۔ تو یہ ہے ہمارا سیکولرازم !

آخر میں سو بات کی ایک بات۔۔۔ آیئن اور جمہوریت کو برباد کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔ اور روایتی جمہوریت کا ڈھونگ چل رہا ہے۔ اقلیتی طبقات کو سرے دبانے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں۔ ملک کے ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم باطل کے ارادوں کو ناکام بنایئں، آئین بچائیں، ملک بچائیں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!