مضامینمعلوماتی

حادثات: ایجاد کی ماں !

مرزا انور بیگ

کچھ لوگ بعض حضرات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی شان میں قصیدے پڑھتے اور تعریفوں کے پل بِنا سیمنٹ اور سریا کے ہی اتنے پائیدار باندھتے ہیں کہ حقیقت میں تعجب ہونے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں تو ہزاروں کروڑ کے سیمنٹ اور سریا کھانے کے بعد بھی افتتاح سے پہلے یا دوچار روز یا مہینے میں ہی گر جاتے ہیں ۔ خیر کسی کی تعریف یا برائی کے پیچھے بیان کرنے والے کا اپنا بھی ایک نظریہ ہوتا ہے۔ کسی کسی کو سب میٹھا میٹھا ہی نظر آتا ہے کسی کو کڑوا کڑوا۔ اب یہی دیکھ لیں اگر اسٹیفن صاحب چاول نہ پکا کر کھیر پکا رہے ہوتے تو وہ قمر در عقرب والی سعت نکل جاتی اور آج طلباء اتنی مصیبت میں گرفتار نہ ہوتے۔ ظاہر سی بات ہے کھیر پکانے کے لئے دیگچی کو ڈھکن سے بند نہیں کیا جاتا بلکہ مسلسل اسے گھونٹا جاتا ہے۔ خیر جو ہوا سو ہوا لیکن ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت ہو رہا تھا۔ ایک طرف گیئر GEAR ایجاد ہو رہا تھا، اور ایک اور طرف نیوٹن کے سر پر سیب نہ گر کر ان کے سامنے آ گرا۔ بالفرض ہم وہاں ہوتے تو ضرور ہمارے سر پر گرتا اور ہم کچھ نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے کسی حکیم کے اڈے پر لیٹے ہوتے اور ہمارا سر گنجا کرکے سر پر نکلے گڑمبے پر لیپ لگایا جا رہا ہوتا ۔ اور یہ سب ہمارے ہوش میں آنے کے بعد ہوتا اور اگر خدانخواستہ سیب ہمارے سامنے گرتا تو ہم دائیں بائیں دیکھ کر سیب کو چپکے سے اٹھا کر دامن میں چھپا یہ جا وہ جا ہوجاتے۔ زیادہ سے زیادہ گھر پہنچ کر اس کارنامے کو خوشی خوشی سنا رہے ہوتے مگر یہ انگریز کے بچے کافر جہنمی سب کو عذاب جاریہ میں مبتلاء کرکے چلے گئے ۔ اور یہ بھی کہ اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ انہیں کس نے وہ ٹکر ماری تھی کہ ان کا تیسرا مشہور قانون ایجاد ہوا کاش زور دار ٹکر ماری ہوتی ۔

پھر وہ حضرت ‘ کے کیولے’ کو دیکھیے۔ ارے بھئی نہیں سمجھ میں آ رہا تھا بینزین کا سالمہ تو کوئی اور ڈھنگ کا کام کر لیتے مگر نہیں۔ وہ بھی استخارہ کرکے سوۓ تاکہ خواب میں بشارت ہو بالکل اسی طرح جیسے ہم کسی لڑکی سے رشتہ کرنے سے پہلے استخارہ کی نماز پڑھ کر سو جاتے ہیں تاکہ اللہ میاں خواب میں ہی اس قاتل حسینہ کو دکھا دیں۔ اب یہ تو علم نہیں کہ وہ آج تک کسی کو دکھائی بھی دیں یا نہیں لیکن حضرت کیولے نے بینزین کا سالمہ ضرور دیکھ لیا اور ایک مصیبت کھڑی کرکے چلے گئے۔ پتہ نہیں ان کے نامۂ اعمال میں نیکیاں جا رہی ہیں یا بدیاں۔

اب ان دوسرے صاحب کو کیا کہا جائے جو نوابی شوق لے کر پیدا ہوئے تھے اور پتنگ بازی کر رہے تھے۔ ہمارے نوابوں نے تو پتنگ بازی کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے معجون اور خمیرے مقوی باہ ایجاد کرواۓ تاکہ ساری وزارتیں اور حکومتی عہدے ایک ہی خاندان میں رہیں مگر ان صاحب کی شرارت دیکھیں کہ ڈور کے ایک سرے پر پتںگ اور دوسرے سرے پر دھات کی چابیاں باندھ رکھی تھی تاکہ پتنگ اڑ نہ جائے مطلب یہ کہ ان کو لے کر اڑ نہ جائے شاید اس وقت تک چرخی ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔ دھات کی چابیاں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ لکڑی کی بھی چابیاں بنتی ہیں جس کے کاریگر خطرناک دہشت گرد ہوتے ہیں جو جیل کے بھاری بھرکم لوہے کے تالوں کو کھولنے کے لئے لکڑی کی چابیاں بنا کر تالے کھول کر جیل کی پچاس فٹ اونچی دیوار پھلانگ کر فرار ہو جاتے ہیں اور کسی جیلر اور سپاہی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ کہ اور جسے پولیس کی تیزی و طراری کہہ سکتے ہیں کہ انہیں فوراً ایک پہاڑی پر تلاش کرکے ڈھیر بھی کر دیتی ہے۔ خیر بات کہاں نکل گئی۔ تو وہ پتنگ بادلوں سے پنگا لے رہی تھی کہ اس غریب کی نظر چابیوں سے نکلتی چنگاریوں پر پڑی۔ پھر کیا تھا اس کا دماغ چل گیا مطلب کام کر گیا اس کے دماغ کی ایسی بتی جلی کہ اس نے بجلی تیار کرکے اچھے اچھوں کی بتی جلا دی یعنی ساری دنیا کو آفت میں مبتلا کردیا خاص طور سے طلباء کو کہ ایک سبجکٹ مزید بڑھ گیا اور وہ بھی بے شمار شاخوں کے ساتھ ۔ شاید اسی ایجاد کے بعد پتنگ کی ڈور لپیٹنے کے لئے لکڑی کی چرخی ایجاد ہوئی ہوگی کہ کسی کو کرنٹ نہ لگے۔

اسی دوران ایڈسن کو بھی مقناطیس سے کھیلنے کی سوجھی اور بلب بنوا دیے اب رات دیر گئے بھی پڑھائی کرنے کے لئے والدین دباؤ بناۓ رہتے ہیں۔

اور ان صاحب کا بھی برا ہو جنھوں نے معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ فوٹو فلم نازک ہوتی ہے میز کے دراز میں رکھ دی جس میں پہلے سے یورینیم رکھا ہوا تھا۔ انہی کی بدولت آج ائیر پورٹ سے کچھ چھپا کر لے کے نکلنا دشوار ہو گیا ہے۔ دراصل اس ایجاد سے علاج کم اور تلاش زیادہ ہورہی ہے۔
کاش
تم یہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا
مجموعی طور پر دیکھا جاۓ تو حادثات ایجاد کی ماں کا نام ہے لیکن ہمارے ملک میں تو حادثات سے صرف آبادی میں ہی اضافہ ہوا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!