جماعت اسلامی ہند کا شورائی نظام
جماعت اسلامی ہند بھارت میں 1948 سے کام کر رہی ہے، اس کے پہلے امیر مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی مرحوم تھے اور موجودہ امیر مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ ہیں. جماعت کا نظام شورائی ہے اور ایک جامع دستور کے تحت جماعت سرگرم عمل ہے. جماعت اسلامی ہند کی میقات چار سالہ ہوتی ہے اور ہر نئی میقات کے آغاز میں ذمہ داران کا انتخاب عمل میں آتا ہے، مارچ 2019 میں ایک میقات کا اختتام ہوا ہے اور اپریل 2019 سے میقات نو کا آغاز ہورہا ہے. آج سے مرکز جماعت اسلامی دہلی میں مجلس نمائندگان کا اجلاس ہورہا ہے جو 7 اپریل تک جاری رہے گا، مجلس نمائندگان، جماعت کی اعلی اختیاراتی باڈی ہے جو امیر جماعت اور مرکزی مجلس شوری کا انتخاب کرتی ہے، اس کے علاوہ دستور میں ترمیم سے متعلق تجاویز پر غور و فیصلہ کرتی ہے.
مجلس نمائندگان کا انتخاب دو مرحلوں میں ہوتا ہے، پہلے مرحلے میں میں غیر علاقائی بنیاد پر پورے ملک کے ارکان کچھ نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں، دوسرے مرحلے میں صوبائی سطح پر ہر صوبے کے ارکان تعداد کے لحاظ سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں. اس طرح 100 سے زائد ارکان پر مشتمل مرکزی مجلس نمائندگان کا انتخاب عمل میں آتا ہے. گویا یہ جماعت کی پارلیمنٹ ہوتی ہے جو انتہائی اہم امور کے بارے میں غور و فیصلہ کرتی ہے.
اس مجلس کا اہم ترین کام نئی میقات کیلئے امیر جماعت کا انتخاب اور مرکزی مجلس شوری کی تشکیل ہے. امیر جماعت کے انتخاب کا طریقہ یہ ہے کہ جب یہ ایجنڈا زیر بحث آتا ہے تو ممبران کو نام تجویز کرنے کا اختیار ہوتا ہے، جب مختلف نام آجاتے ہیں تو ان سب سے مودبانہ درخواست کی جاتی ہے کہ ھاؤس سے باہر جاکر کچھ دیر آرام کرلیں، ان کی غیر موجودگی میں آزادی کے ساتھ تبادلہ خیال کا سلسلہ چلتا ہے اور دستور جماعت میں مذکورہ اوصاف مطلوبہ اور ذمہ داریوں کی روشنی میں تفصیلی ڈسکشن ہوتا ہے. مجوزہ ناموں سے متعلق مثبت اور منفی تمام پہلو زیر بحث آتے ہیں، اس مرحلے کی تکمیل کے بعد تمام افراد کو اندر بلا لیا جاتا ہے اور سب کے ہاتھ میں پرچی دے جاتی ہے، سب لوگ اپنی رائے تحریر کرنے کے بعد پرچیاں جمع کردیتے ہیں اور کاؤنٹنگ کے بعد نتائج کا اعلان صدر مجلس کر دیتے ہیں. اسی طرح ارکان شوری کے تعلق سے ممبران اپنی تحریری رائے دیتے ہیں اور مرکزی مجلس شوری کی تشکیل ہوتی ہے، امیر جماعت، شوری کے مشورے سے پالیسی پروگرام مرتب کرتے ہیں اور دیگر ذمہ داران کا تعین کرتے ہیں. اس طرح پورا نظام شورائی طریقے سے چلتا ہے اور بہت پر سکون اور باوقار طریقے سے انتخابی عمل انجام پاتا ہے. یہ شورائی نظام بلا شبہ ایک عمدہ اور معیاری نظام ہے جو تنظیموں اور جماعتوں کیلئے ایک نمونہ ہے.
طاھر مدنی