سماجیسیاسیمضامین

بہار چناؤ میں جنگل راج کا شور

مرزا انور بیگ

بہار چناؤ میں جنگل راج کا شور ہے۔ اور یہ شور ہر چناؤ میں بہار میں گونجتا رہتا ہے۔ کبھی اس کے حمایتی اسی جنگل راج کے راجاؤں سے گٹھ جوڑ کر لیتے ہیں اور کبھی الگ ہو کر پھر جنگل راج کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ جنگل راج ہے کیا؟ بہار کے تناظر میں دیکھیں تو اسے لالو پرساد یادو کے دور حکومت سے جوڑا جاتا ہے جو ۱۹۹۰ سے ۲۰۰۵ یعنی پندرہ سالوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ اس دور میں نظم و نسق کا معاملہ ابتر تھا۔ تعلیمی نظام تعطل کا شکار تھا۔ صحت عامہ کا معاملہ خراب تھا۔ بے روزگاری عروج پر تھی۔ عورتیں محفوظ نہیں تھیں۔ چوری ڈکیتی سے بڑھ کر پھروتی عام تھی۔ اور چھ بجے شام کے بعد کوئی گھر سے نکل نہیں سکتا تھا اتنا لوٹ مار کے خوف کا ماحول تھا۔ یہ تھا کل ملا کر لالو راج اور یہی تھا درحقیقت جنگل راج۔ بہار میں کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوئی نہ کارخانے قائم ہوئے نہ اسپتال قائم ہوۓ نہ اسکول کالج یونیورسٹی وغیرہ قائم ہوئیں۔ پوری ریاست ہندوستان کی تمام ریاستوں سے پچھڑی ہوئی تھی اور کرپشن کا دور دورہ تھا۔

اب زرا نتیش کمار کے ترقی یافتہ ریاست کا جائزہ لیں جو اس چناؤ کے دور میں سامنے آیا ہے۔ نتیش کمار کے پاس دعویٰ تو بہت ہے کہ ان کے دور میں بہار میں خوب ترقی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود وہ خود انہیں گنا نہیں پا رہے ہیں۔ صرف ترقی کا ذکر کرتے ہیں مگر کس شعبہ میں ہوئی ہے یہ نہیں بتا پاتے ۔ ان کے حواریین ان کے سات نکات کا ذکر کرتے ہیں جو صرف سات عجوبے لگتے ہیں۔ وہ سڑک پانی اور بجلی کو سب سے بڑی ترقی بتاتے ہیں کہ گاؤں گاؤں سڑک پہنچا دی لیکن ان سڑکوں کی حالت زار دیکھ کر خون کے آنسو بہیں گے دونوں کناروں پر کچرے کا ڈھیر ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ جل نل یوجنا کا حال یہ ہے کہ صرف گڑھے کھود کر ان میں پلاسٹک کے پائپ بچھا دیے گئے ہیں جن میں نل بھی نہیں ہیں اور پانی ندارد ہے۔ جن علاقوں میں پانی آ بھی رہا ہے تو وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ پانی پینے لائق نہیں ہے اور اس میں پانی آنے کی رفتار ایسی ہے جیسے بچہ پیشاب کرے۔ شراب بندی ہے لیکن مہنگے داموں گھر گھر شراب پہنچائی جاتی ہے۔

باڑھ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے بہار میں جس کا اب تک کوئی خاطر خواہ حل نہیں نکالا گیا لیکن اس سے بڑھ کر یہ ناکامی ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کا بھی کوئی خاص انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے غریب بستیاں بارش ختم ہو جانے کے بعد بھی پانی میں ڈوبی رہتی ہیں جس سے طرح طرح کی بیماریاں اور موذی حشرات کا خطرہ بنا رہتا ہے پانی میں چل چل کر لوگوں کے پیڑ سڑ گئے ہیں۔ حکومت کی تمام یوجنائیں صرف کاغذی ہیں۔ ہر کام کے لئے رشوت عام ہے۔ چاہے بے گھر کو گھر دیا جانا ہو یا کسی کی زمین کی خرید و فروخت کے لئے قانونی دستاویزات بنانے ہوں بغیر رشوت کام نہیں ہوتا۔ سرکاری ملازمتیں خالی پڑی ہیں۔

اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں ہیں اسکولوں میں ٹیچرز نہیں ہیں کالجوں میں پروفیسرز نہیں ہیں اور جو ٹیچرز ہیں بھی تو تین چوتھائی غیر تربیت یافتہ ہیں۔ نظم و نسق کا معاملہ بھی خراب ہے اور عورتوں کے تحفظ کے دعوے بھی کھوکھلے ہیں۔ بیروزگاری عروج پر ہے۔ مہنگائی آسمان چھو رہی ہے۔ ڈہاڑی مزدوروں کو مہینے میں تین چار دن ہی کام مل پا رہا ہے۔ جرائم میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سرکاری اعداد و شمار دیکھے جائیں تو جنگل راج کے مقابلے نتیش کمار کے ترقی یافتہ راج میں ہر معاملے میں ڈیڑھ سے دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ لوٹ کالا بازاری بڑھی ہے۔ تعلیم و صحت عامہ کا معاملہ مزید خراب ہوا ہے

سوال یہ ہے کہ اگر لالو پرساد یادو کے دور کی یہ تمام برائیاں جنگل راج کا لیبل لگاتی ہیں تو یہی برائیاں نتیش کمار کے راج کو جنگل راج کا لیبل کیوں نہیں دیتیں ؟
غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کی بنیادی وجہ ہمارا ذات پات کا نظام ہے۔ نتیش کمار کی چونکہ بھاجپا والوں سے سانٹھ گانٹھ ہے اس لئے نہ تو یہ جنگل راج سرکاری میڈیا دکھاتا ہے اور نہ اسے جنگل راج کا نام دیا جاتا ہے۔ چوں کہ لالو پرساد یادو نے بھاجپا سے کسی قیمت پر سمجھوتا نہیں کیا اسی لئے انہیں جیل میں بھی ڈالا گیا ہے اور ان کے دور حکومت کو جنگل راج کے نام سے پکارا بھی جاتا ہے اور اس کے واپس آجانے سے عوام کو ڈرا کر ووٹ بھی مانگا جاتا ہے۔ ان کے مطابق جس جنگل راج کے بارے میں نتیش اور بھاجپائیوں کا کہنا ہے کہ اس دور میں لوگ چھ بجے کے بعد گھر سے نہیں نکلتے تھے لیکن اس سے پہلے جب اونچی ذات والے بہار میں حکمراں تھے تو وقت کی کوئی قید نہیں تھی دن دہاڑے لوگوں کو اٹھا لیا جاتا تھا۔ نیچی ذات کی عورتوں کو دن میں ان کے گھروں سے اٹھوا لیتے تھے اور صرف اونچی ذات کا ایک لڑکا ڈنڈے کے زور سے دلتوں کا پورا گاؤں اور ان کی زمینیں خالی کرا لیتا تھا لیکن نہ اس بات کو میڈیا سامنے لاتا تھا نہ کسی میں ان کے خلاف بولنے کی جرات تھی۔ نہ کوئی اس دور کو جنگل راج کا نام دیتا تھا۔

کسی دلت کی ہمت نہیں تھی کہ کسی اونچی ذات والے کی گلی سے گزر سکے۔ یہ تو انتہا تھی ذات پات کو لے کر اور نظم و نسق کی۔ رہی بات معاشی ترقی کی روزگار کی، اس کا حال تو سب جانتے ہیں کہ اگر اس پر توجہ دی جاتی تو بہار آج اتنا پچھڑا نہ ہوتا۔ لالو پرساد یادو کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے دلت اور پچھڑی ذاتیوں کو سر اونچا کرکے چلنا سکھایا اور ہزاروں سال کے اس بت کو توڑا جس میں کسی بابو صاحب کے سامنے کوئی سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتا تھا۔ لالو نے اس پچھڑی قوم کو اس کا وقار واپس دلایا اور یہی پھانس اونچی ذات والوں کو کھٹکتی ہے جس کی چبھن ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ انہیں لالو راج جنگل راج دکھائی دیتا ہے لیکن نتیش راج میں ان سے زیادہ خرابیاں موجود ہیں وہ سب رام راج ہیں۔ بہار کے علاوہ دیگر ریاستوں میں اترپردیش جرائم کے معاملے میں اول نمبر پر ہے۔ وہاں دن دہاڑے گولیاں ماری جاتی ہیں، پولیس اسٹیشن میں دبنگ آکر قتل کر دیتے ہیں، پولیس پر حملے ہوتے ہیں بلکہ پولیس کی نگرانی میں پھروتی کی رقم دی جاتی ہے اور پھر بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ منسٹر تک عورتوں کی عصمت دری کے مجرم ہوتے ہیں مگر انہیں پھولوں کی مالا پہنائی جاتی ہے۔

ہاتھرس جیسے معاملات بار بار ہوتے ہیں۔ لیکن وہاں کے بے غیرت وزیر اعلی کی پیٹ تھپتھپائی جاتی ہے اور انہیں بہار میں اسٹار پرچارک بنا کر بھیجا جاتا ہے۔ جو وزیراعظم اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات میں جنگل راج کرچکا ہو وہ بہار آکر جنگل راج کے خلاف تقریر کرتا ہے لیکن اس پر کسی کی انگلی نہیں اٹھتی۔ جس وزیر اعظم نے پورے ملک میں جنگل راج کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، جس کے ان چھ سالوں میں مسلسل مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف وارداتیں ہو رہی ہیں، معاشی تباہی کے دہانے پر ملک پہنچ گیا ہو، بیروزگاری عروج پر ہو اور جھوٹے وعدوں اور نعروں سے قوم کو دھوکا دیا جارہا ہو۔ قانون کی بالادستی کو جہاں ختم کردیا گیا ہو، جج بک چکے ہوں اور ایماندار افسروں، ججوں کا یا تو تبادلہ کردیا جاتا ہو یا ہٹا دیا جاتا ہو، جہاں کالابازاری کے نام پر حزب اختلاف پر ایجنسیوں کے ذریعے کارروائی اور اپنوں کو بچایا جاتا ہو اور چند سرمایہ داروں کی جیب بھرائی کے لئے کام کیا جاتا ہو۔ وباء سے نمٹنے کے بجائے اپنے سیاسی فائدے کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہو اور جہاں الیکشن کمیشن بھی خرید لیا گیا ہو۔ عوام بھوکی مر رہی ہو کسان مخالف قانون سے کسان پریشان ہوں لیکن وزیر اعظم اپنے سیر سپاٹوں کے لئے ساڑھے آٹھ ہزار کروڑ کا جہاز قومی خزانے سے خرید رہا ہو تو یہ جنگل راج نہیں ہے۔

تجزیہ نگاروں نے حقیقت کی تصویر ضرور پیش کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں لالو یادو نے پچھڑی قوموں کے وقار کو بحال کیا وہاں یہ بھی ہوا کہ جب ان قوموں کے ہاتھ حکومت آئی تو پھر انہوں نے بھی بہت جگہ بدلے کی کاروائی بھی کی اور برائی کو برائی سے ہی دور کرنے کی کوشش کی۔ اسی غلطی کو بنیاد بنا کر ہر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی فراہم کیا۔

راہ اعتدال تو یہ تھی کہ ٹھاکروں کا ظلم ختم تو کیا جاتا لیکن اس کے لئے ظلم کا راستہ اختیار کرنا دوسرے ظلم کے دور کی شروعات کرنا ہے جو کسی صورت انسانیت کے حق میں نہیں ہے۔ اسلام نے ظلم کو ظلم سے ختم نہیں کیا۔ صرف ظالم کو کمزور کرکے کہ اس کے اندر ظلم کرنے کی طاقت نہ رہے اسی حد تک کارروائی کی۔ رہے باقی کے حقوق ان کی ادائیگی پر زور دیا۔ سب کو زندہ رہنے کے مواقع دیے ۔ اس طرز عمل کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ کا وہ دن ہے جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سب سے زیادہ جو بہا ہے وہ رحمت کا دریا تھا۔ جاؤ آج کے دن تم سے کوئی بازپرس نہیں۔ تم سب آزاد ہو۔ پوری قوم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کی پیاسی تھی ان کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ ان کے لئے جینے اور سنورنے کے پورے مواقع عطا کردیے۔ اگر بہار میں بدلے کی ذہنیت پروان نہ چڑھتی صرف دلتوں کے وقار کی بحالی کے ساتھ سب کو سماجی انصاف ملتا تو کبھی بھی فرقہ پرستوں کو یہ موقع نہ ملتا کہ وہ بہار میں لالو راج کو جنگل راج کہتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!