ضلع بیدر سے

بسواکلیان: درگاہ حضرت شیر سوار ؒمیں عید میلاد النبی ؐ ، مولوی کاشف پاشاہ بندہ نواز حیدرآباد کا خطاب

بسواکلیان: یکم نومبر (کے ایس) حضورﷺ سے چاہت کا طریقہ صحیح طریقہ یہ ہیکہ آپ کے بتائے ہوئے نقشِ قدم پر چلیں،جلوس،جلسہ اور دیگر بیجا رسومات کے ذریعہ ہم اسکو حضور کی اتباع یا عشقِ رسول کا اظہار کرنا بے فائدہ ہے۔حضور نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بتایا،خدمتِ خلق کو اسلام کا ایک اہم جُز بتایا،آج ہم حقیقی اسلام سے کافی دور نکل گئے ہیں،غیر ضروری رواج پر ہم عمل کرکہ اسکو اسلامی ذکر کا ذریعہ بتایا،خواتین اپنے شوہر کی اطاعت کریں اور شہر حضرات اپنے فرائض اہلِ خانے سے ادا کریں،یہی حضور کی اتباع ہے،آپکے دُنیا میں آنے کا مقصد صرف اور صرف بھٹکی ہوئی انسانیت کو راستہ بتاناہے اور امتِ مسلمہ کو اسلامی اقدار پرمبنی اخلاق برادران وطن کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار جناب مولوی کاشف پاشاہ بندہ نواز حیدرآباد نے عید میلاد النبی ؐ کے موقع پر درگاہ حضرت شیر سوار ؒمیں کرتے ہوئے بتایا۔

مولانا کاشف پاشاہ نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ حضور ﷺ کی پیدائش ہمارے لئے نعمت عظمیٰ ہے اور نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا اور شکر ادا کرنا انسان کا لازمی تقاضہ ہے اور ناشکری کرنا کفر ہے۔آپ کے اہلِ اوصاف پر بھی ایک نگاہ ڈالئے۔آپ معاملات میں دوست دشمن اپنے پرائے کا خیال نہ فرماتے جس کا حق ہوتا اُسی کے حق میں فیصلہ دیتے۔ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی میں جھگڑا ہوگیا۔یہودی نے کہا تمہارے نبی جو فیصلہ کرینگے مجھے منظور ہے۔مسلمان نے یہودی سے کی بات اس لئے تسلیم کے حضور صلعم یہودی کے مقابلہ میں میرا خیال فرمائیں گے۔دونوں مقدمہ لے کر دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے حق پر یہودی تھا حضورؐ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔

قبیلہ نبی مخزوم کی ایک خاتون نے چوری کی مقدمہ حضورؐ کے پاس آیا حضورؐ نے جرم کے ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا لوگو حضرات اُسامہ کے ذریعہ سفارش کروائی کہ وہ دولتمند گھرانے کی خاتون ہے اس کی سزا میں تخفیف کی جائے تو مناسب ہوگا یہ سن کر حضور ؐ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا آپؐ نے فرمایا گذشتہ قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ دولت مند آدمی جرم کرتا تو سزا دی جاتی۔قسم بخدا۔(بغرض محال)محمد کی بیٹی بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹا جائیگا۔آئے آپ کے پاس انسانیت کا کس قدر پاس ولحاظ تھا دیکھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ اونٹ پر سوار ہیں فاتحانہ انداز میں داخل ہورہے ہیں آپ کی گردن مبارک جھکی جھکی جارہی ہے۔کیا بات تھی؟

بات یہ تھی کہ مکہ کے وہ لوگ جو آپ کا جینا دو بھر کردئے تھے،جان کے دشمن بن گئے تھے،جن کی وجہ سے آپ ؐ کو مکہ مکرمہ جو آپ کا وطنِ مالوف تھا چھوڑ کر مدینہ شریف کو جانا پڑا وہ سب لوگ ڈرے سہمے کھڑے ہیں آج ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے مگر حضور ؐ یہ خیال ہوا کہ میرے چہرے کو دیکھ کر شرمندہ نہ ہوجائیں۔کتنا اونچا یہ اخلاق تھا اندازہ لگائیے مجھے آپ نے فرمایا آج تم پر کوئی گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو یہ تھی آپ کی انسانیت نوازی۔اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ،حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عثمانِ غنی ؓ،حضرت علیؓ کی فضیلت علیحدہ علیحدہ ہے۔اسلام کو ہم اپنانا ہی حضور کی سیرت کی تکمیل اور اُنکی اسلامی اقدار اپنانا ہی سیرت کی تکمیل ہے۔حضور ﷺ نے نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک کہا ہم نماز پابندی سے پڑھ کر اُنکے آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں۔حضور کے اخلاق کو اپنائے اسکواپنے زندگی میں نافذ عمل کریں یہی سیرت نبوی کاحق ہے۔

اس موقع پر جناب خواجہ ضیاء الحسن جاگیر دار متولی،امام و خطیب مسجد شاہ پور،جناب محی الدین صاحب سابقہ انجینئیر موضف پی ڈبلیو ڈی بسواکلیان حال مقیم کلبرگی،سید حامد پاشاہ قادری،غفار پیش امام،میر تحسین علی جمعدار،ایجاز لاتورے،میر وارث علی اور مشائق عظماعء کی کثیر تعد موجود تھی۔بعد نماز ظہر قرات کلام پاک سے پروگرام شروع کیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!