فرانس کی حمایت میں مودی!
کیا مسلم لیڈرشپ ناموس رسالتﷺ کے ليے میدان میں آئے گی؟
سمیع اللّٰہ خان
بھارت کی وزارت خارجہ کے بعد اب براہ راست وزیراعظم نریندرمودی نے فرانس کی حمایت کی ہے، نریندر مودی نے فرانس میں دہشتگردانہ حملوں اور گزشتہ چرچ پر حملے کو بنیاد بناکر فرانس کو حمایت اور تعزیت پیش کی ہے، دہشتگردانہ حملے سے ان کی مراد گستاخئ رسالتﷺ پر اضطراری ردعمل ہے،
یہاں بھی وزیراعظم نے بدترین خیانت کی ہے جیسے وزارت خارجہ نے کی ہے، اس طرح کہ بھارتی گورنمنٹ فرانس کو یکطرفہ اور اندھادھند سپورٹ کررہی ہے،
یہ لوگ ناموس رسالت پر مسلمانوں کی بے چینی کو دہشتگردی قرار دے رہے ہیں، جبکہ گزشتہ کل چرچ پر جو حملہ ہوا ہے اس کےمتعلق قوی امکان ہیکہ یہ خود فرانسیسی حکومت کی ایجنسیوں کی کارفرمائی ہے تاکہ اپنے اوپر ہی حملے کروا کے عالمی سطح پر ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں، اور مسلمانوں کو وِلن بناکر پیش کیا جائے، لیکن مودی جی یکطرفہ اس حوالے سے فرانس کو حمایت دے رہےہیں البتہ فرانس کی طرف سے سیکڑوں کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری اور توہینِ رسالتﷺ پر وزیراعظم صاحب کے منہ میں دہی جم گیا ہے، اور اس طرح بھارت کی کٹّر ہندوتوا گورنمنٹ توہین رسالتﷺ کو حمایت دے رہی ہے، ملک کا استحصال اور ملکی گدی کا استعمال عالمی دجالی استعمار کی چاپلوسی اور عالمی سطح پر مسلم دشمنی کو بڑھانے کے لیے کر رہی ہے _
وہ لوگ بڑے احمق ہوں گے جو آر۔ایس۔ایس، بھاجپا اور مودی جیسے برہمنی ہندو احیاء پرست جماعت سے انصاف یا انسانیت کی ادنی امید رکھتے ہوں، ہمیں ان سے کبھی کچھ امیدیں نہیں تھیں بلکہ ہمارا مدعا اپنی قوم سے ہے کہ اب ہمارا من حیث الامت موقف کیا ہوگا؟ کیونکہ ہندوستانی حکومت یہیں پر ٹھہرنے والی نہیں ہے ۔
عالمِ کفر رسول اللہﷺ کی ناموس کے خلاف متحد ہے.
بھارتی حکومت عالمی فورم پر توہین رسالتﷺ کے ساتھ کھڑی ہے لیکن کیا ہندی مسلمانوں کی لیڈرشپ اب عالمی فورم پر پہنچ کرناموس رسالت کا دفاع کرےگی؟ ماضی میں ایسی نظیریں ملتی ہیں کہ پاکستان کےخلاف ہندوستانی گورنمنٹ یا وطن کے سیکولر موقف کا دفاع کرنے کے لیے ہمارے قائد حضرات ملک سے باہر پہنچ کر پریس کانفرنس کرچکے ہیں اور اب تو قضیہ حرمت رسولﷺ کا ہے جس پر مر مٹنا باعث ثواب ہے کیا اس کی خاطر ہماری مسلم لیڈرشپ کچھ ایسے قدم اٹھائے گی کہ انہیں عالمی سطح پر محسوس کیا جاسکے اور یہ پیغام جائے کہ گرچہ بھارتی حکومت کا موقف ناموس رسالتﷺ کے خلاف ہے لیکن ہندوستانی مسلمان اس کے ساتھ نہیں ہے… اور ظاہر ہے یہ فرض ہے، مولانا رابع حسنی ندوی، مولانا ولی رحمانی مولانا ارشد مدنی، اصغر علی مہدی سلفی دیگر قائدینِ اہلحدیث، توقیر رضا سمیت حضرات سجادہ نشین سنی بریلوی، مولانا محمود مدنی، سید سعادت اللہ حسینی، مفتی ابوالقاسم نعمانی، مولانا جلال الدین عمری، مولانا سجاد نعمانی، مولانا خالد سیف الله رحمانی، جیسے حضرات پر، کہ وہ اردو میں زبانی اور کاغذی مذمت سے اوپر اٹھیں کیونکہ مسلمان قوم جو اردو جانتی ہے وہ پہلے سے ہی ناموس رسالتﷺ کے لیے مر مٹنے تیار ہے، لیڈرشپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فرانسیسی سفارتخانے کے باہر خود پہنچ کر احتجاج کریں اور یہ سبھی لوگ دہلی پریس کلب سے متحدہ طورپر ناموس رسالتﷺ پر موقف بیان کریں تاکہ کم از کم دنیا بھر میں ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا ثبوت پہنچے اور نبیۖ کے نام لیواﺅں کا بھرم باقی رہے _
میں پھر سے بصد احترام اصرار کرتاہوں کہ صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں، جب ہندوستان کی خارجہ پالیسی بدل رہی ہے اور صراحت سے مسلم دشمنی پر قائم ہورہی ہے تو کیا اس کا استقبال کرناچاہئے؟ آج ہمارے ملک کی سرکار توہین رسالتﷺ کی حمایت کررہی ہے، اور عالمی منظرنامے پر دہشتگردی کی تعبیر کس تناظر میں استعمال ہورہی ہے وہ سب جانتے ہیں جس کے ساتھ ہمارا ملک کھڑا ہے، اس کا مطلب واضح ہے کہ آئندہ ہمارے ملک کی پالیسیاں ایسی ہوں گی کہ ہم، اپنے عالمی اسلامی قضیے، فلسطین، مسجد اقصیٰ، عالم عربی میں صہیونیت مخالف، اخوان المسلمین، ترک مسلمانوں سے وابستگی وغیرہ امور میں ایمانی تقاضوں کا کچھ بھی حق ادا نہیں کرسکیں گے، لیکن اگر آج اعلیٰ سطحی مسلم لیڈرشپ ظالم حکومت کو حیران کرتے ہوئے اقدامی موقف اپنائے، عالمی اسلامی دنیا سے مسلمانوں کی جذباتی و ایمانی وابستگی کو بیان کریں یہ موضوع بھی اچھا ہے جس پر سبھی جمع ہوسکتےہیں، فرانسیسی سفارتخانے کے باہر ساری بڑی مسلم قیادتیں احتجاج کرکے دہلی پریس کلب سے بیانیہ جاری کردیں تو ہندوستانی حکومت کے یہ مسلم دشمن عزائم جو انہیں عالمی مسلم برادری سے کاٹنے والے ہیں وہ کسی قدر پیچھے ہٹ جائیں گے ورنہ پھر ہمیں آنے والے دنوں میں عالمي اسلامی معاملات میں اسلام پسندی کا اظہار مشکل ہوگا۔