‘نربھیا’ کی وکیل لڑیں گی ‘ہاتھرس کی بیٹی’ کا کیس، سپریم کورٹ جانے کی تیاری
معروف وکیل سیما کشواہا کا کہنا ہے کہ پولس کی کارروائی شروع سے ہی شک کے دائرے میں ہے۔ لہٰذا عدالت میں وہ یو پی پولس اور صفدر جنگ اسپتال کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کریں گی۔
ہاتھرس اجتماعی عصمت دری کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں جاتا ہوا نظر آ رہا ہے اور ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ‘نربھیا معاملہ’ کی وکیل سیما کشواہا نے اس کیس کو لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس تعلق سے ہندی نیوز پورٹل ‘نیوز18’ پر ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سیما کشواہا نے خصوصی بات چیت کے دوران اعتراف کیا ہے کہ وہ ہاتھرس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جانے کو لے کر تیاریاں کر رہی ہیں۔
سیما کشواہا نے اپنی بات چیت کے دوران بتایا کہ دو دن پہلے ہی ہاتھرس پہنچ کر متاثرہ کی فیملی سے انھوں نے ملاقات کی اور متاثرہ فیملی نے مقدمہ کرنے کی منظوری دینے کے ساتھ ساتھ پورے واقعہ کی بھی جانکاری مہیا کی ہے۔ سیما کشواہا نے بتایا کہ متاثرہ کے بھائی سے ہوئی فون پر بات چیت کے بعد وہ ہاتھرس فیملی سے ملنے پہنچی جہاں انھیں ملنے سے روک دیا گیا تھا، حالانکہ متاثرہ کے چچیرے بھائی نے ان سے دہلی میں ملاقات کی جہاں مقدمہ کرنے کو لے کر سبھی ضروری باتیں فائنل ہو گئی ہیں۔ علاوہ ازیں متاثرہ فیملی سے وکالت نامہ پر دستخط کرانے کا عمل بھی پورا کیا جا رہا ہے۔
سیما کشواہا کا کہنا ہے کہ “ہاتھرس معاملہ میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی جائے گی، حالانکہ ابھی اتر پردیش حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 12 اکتوبر کو یہ رپورٹ آنی ہے جسے دیکھنے کے بعد ہی ہم مقدمہ فائل کریں گے۔” وہ مزید کہتی ہیں کہ “اگر ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں خامیاں نظر آئیں گی یا کسی کا کوئی بیان درج نہیں ہوا ہوگا، یا پھر چیزیں بدلی گئی ہوں گی تو اس سے پہلے الٰہ آباد ہائی کورٹ بھی جا سکتے ہیں اور عدالت سے ہدایت جاری کرنے کی اپیل کریں گے جس میں عدالتی نوٹس لینے سے پہلے اس معاملے کی مختلف زاویے سے دوبارہ جانچ کا حکم دے سکتی ہے۔” سیما کشواہا کا کہنا ہے کہ “متاثرہ کے گاؤں میں دوسرا فریق کسی بھی طرح سے لڑکوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کے لیے وہ اس فیملی کی مدد کرنے والوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا اس معاملے کو ہم دہلی میں منتقل کروانے کی پوری کوشش بھی کریں گے۔”
ہاتھرس واقعہ کے تعلق سے سیما کشواہا کا کہنا ہے کہ متاثرہ کی موت ہو چکی اور اس کے بیان کے مطابق عصمت دری ہوئی ہے۔ لیکن 8 دن تک اس کا ٹیسٹ نہیں کرایا جاتا، عصمت دری کی دفعات بعد میں جوڑی جاتی ہیں، صفدر جنگ اسپتال میں اسے لایا جاتا ہے لیکن یہاں صرف اس کا ایک بلڈ ٹیسٹ ہوتا ہے جب کہ آپریشن سے پہلے کئی ساری جانچ ہوتی ہیں جو کہ نہیں ہوئیں۔ یہاں سے پولس جبراً اسے لے جاتی ہے، رات کے ڈھائی بجے بغیر لاش اس کے گھر والوں کو سونپے آخری رسومات ادا کر دیتی ہے۔ یہ جرم ہے۔ یہ بے حد ہی غیر انسانی اور بنیادی حقوق کے خلاف کی گئی کارروائی ہے۔ پولس کی کارروائی شروع سے ہی شک کے دائرے میں ہے۔ لہٰذا عدالت میں وہ یو پی پولس اور صفدر جنگ اسپتال کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کریں گی۔