نوکری چاہیے تو حجاب چھوڑو۔۔۔ اے ایم یو کی مسلم طالبہ اسلاموفوبیا کی شکار!
سمیع اللّٰہ خان
غزالہ احمد اے ایم یو میں ماس کمیونیکیشن کی طالبعلم ہے، وہ ایک ہونہار طالبعلم ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف اور حقوق کے لیے متحرک رہنے والی فکرمند لڑکی ہے وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس میں ظلم کے خلاف انصاف کی مضبوط آواز بھی سمجھی جاتی ہیں اور ملی ایشوز پر متحرک بھی رہتی ہیں، غزالہ جیسی بچیاں موجودہ مسلم کمیونٹی میں بیحد ضروری ہیں اور اپنی خاتون نمائندگی سے محروم کروڑوں مسلم خواتین میں ایسی لڑکیوں کا ہونا مفید ہے، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہیکہ ملت کے ایشوز ملکی مسائل اور سیاسی احوال میں ہمارے یہاں مسلم بچیاں اکثروبیشتر یا تو لیفٹ کی لڑکیوں کے پیچھے چلتی ہیں یا تو کانگریسی آواز سنتی ہیں اسلیے کہ پراپر اسلام پسند خواتین کی ایکٹو ٹیم مسلمانوں میں نہیں ہے جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا، ایسے میں اگر غزالہ جیسی لڑکیاں ہماری دانشگاہوں سے تربیت پاکر ان میدانوں میں پہنچیں تو یہ کتنی اچھی بات ہوگی _
لیکن افسوس کہ ہندوستان کی جڑوں میں خون کی طرح دوڑتا ہوا اسلامو فوبیا اس بچی کی راہ میں حائل ہوگیا غزالہ نے بحیثیت صحافی دہلی کے ایک میڈیا ہاؤز میں نوکری تلاش کی اس کا انٹرویو وغیرہ سب مکمل ہوگیا لیکن آخر میں اس سے یہ مطالبہ کیاگیا کہ وہ حجاب اوڑھنا چھوڑ دے اس مطالبے کو غزالہ نے تسلیم نہیں کیا اور اسے نوکری نہیں ملی، جس میڈیا ہاؤز نے حجاب زیب تن کرنے کی وجہ سے غزالہ کو منع کیا اس نے یہ بھی کہا کہ: ہم تو چھوٹا سا ہندی پورٹل چلا رہے ہیں اب تو بڑے بڑے میڈیا ہاؤز میں باحجاب نوکری نہیں ملتی ” ! مذکورہ نیوز ایجنسی نے نہ صرف غزالہ کو حجاب کی وجہ سے نوکری دینے سے انکار کیا بلکہ ہندوستان میں باحجاب مسلم خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اس کا بھی اعتراف کیا_
یہ ہندوستان ہے، یہ دنیا کہ سب سے بڑی جمہوریت ہے، باحجاب اور برقعہ پوش مسلم خواتین کو کیسی متعصبانہ پالیسیوں سے گزرنا پڑتا ہوگا اس ملک میں شاید اس واقعے سے اندازہ ہوجائے گا، ایسے دور میں جب بےحیائی عام نہیں بلکہ بےحیائی کو عزت اور ترقی کا نشان بنادیا گیا ہے اسوقت ہماری قوم کی بچی اسلامی حجاب پر عمل پیرا ہونے کی بنا پر غیرمنصفانہ سوتیلے سلوک کا شکار ہوگئی، دراصل حیاء باختوں کو ایک باحیاء اور باعزت لڑکی ہضم نہیں ہوئی، وزیراعظم نریندرمودی جو مسلم عورتوں کے حقوق کی دہائی دیتے نہیں تھکتے ان کے دعووں کی دوغلی حقیقت بس اتنی ہی ہے_
ہم سب غزالہ کے ساتھ ہیں، غزالہ کو مزید بہتری عطاء ہوگی، غزالہ کا کوئی نقصان نہیں غزالہ کے ذریعے انڈین اسلامو فوبیا اور یہاں کے پروفیشنل اداروں کے اندر موجود اسلام دشمنی کا ایک بڑا ریکٹ سامنے آیا ہے، عورتوں کے حقوق کے علمبردار مساوات اور صنف نازک کے دعویداروں کے خول کتنے پھٹے ہوئے ڈھول ہیں کہ اپنی پسند کی لائف اسٹائل ایک لڑکی کو نہیں دینا چاہتے، کیونکہ اپنی پسند سے باعزت راہ چننے والیاں پوسٹر گرل نہیں بنتیں، اور وہ لڑکیوں کو کھلونا دیکھنا چاہتےہیں بااختیار نہیں، بااختیار مائیں زندہ نسلوں کو جنم دیتی ہیں غلاموں کو نہیں وہ زندہ نسل کی پیدائش سے خوفزدہ ہیں، ہماری باحجاب بچیاں کامیاب ہیں _امید ہیکہ غزالہ خود کو مظلوم نہیں سمجھیں گی اور کمیونٹی کے انٹلکچوئل اس بچی کے ساتھ پوری قوت سے کھڑے ہوکر تمام مسلم بیٹیوں کو اعتماد میں لیں گے_