حالاتِ حاضرہمضامین

جماعتِ اسلامی کا یومِ تاسیس

✍: – تابش سحر

یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان میں مغلوں کا چراغ بجھ گیا تھا، برطانوی سامراج کا سورج بھی غروب ہورہا تھا، آزادی کے متوالوں کی جدّوجہد رنگ لارہی تھی، مستشرقین نے احکامِ اسلام کے تئیں شکوک و شبہات پیدا کردیے تھے، شعائر کا مذاق اڑایا جارہا تھا اور قوانینِ اسلام پر حملے کیے جارہے تھے، کانگریس کی سیاسی تحریک اور یک قومی نظریہ کا طوطی بول رہا تھا، عوام تو عوام علماء کرام کی ایک بڑی تعداد بھی کانگریس کے پرچم تلے زندگی گزارنے میں عافیت سمجھ رہی تھی، وطنیت کے پرستار اپنے صنم کو سجدے کررہے تھے، تخت و ریاست سے محروم مسلم امّت’ جس نے اپنی سیاسی طاقت اور ایمان کے بل بوتے پر نظامِ جہاں بانی سنبھالا تھا، پیاسی انسانیت کو آبِ حیات پیش کیا تھا، سیاست کے میدان میں جلوے دکھائے تھے، جہاد کے ذریعہ ظالموں کو ٹھکانے لگایا تھا.

مظلوموں کی دادرسی کی تھی اور جھوٹے خداؤں کے مجسّمے پاش پاش کیے تھے آج وہی مرعوبیت کی زندگی گزار رہی تھی، نئے نئے نظریات، مغربی تہذیب اور غلامانہ زندگی نے ان کے اسلام کو نہایت محدود کردیا تھا، اپنی نماز اور اپنے روزے کو تو وہ اسلام جانتے تھے مگر قیامِ حکومتِ الٰہیہ کے کے لیے جدوجہد کرنا، سیاست کے میدان میں پنجہ آمائی کرنا ان کے نزدیک فضول تھا اسی کو علّامہ اقبالؒ نے کچھ یوں بیان کیا تھا؛
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد۔۔۔۔۔

علّامہ مودودی اپنی ایمانی فراست کی روشنی میں صاف دیکھ رہے تھے کہ حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں، ملک کی آزادی بھی غلامی کے نئے دور کا آغاز ہوگی، چنانچہ وہ تحریکی کاوشوں کے لیے علّامہ اقبالؒ کی دعوت پر 1938ء میں حیدرآباد سے پنجاب چلے آئے، آپؒ کی تحریکی جدوجہد جاری رہی حتّیٰ کہ 26 اگست 1941ء کو اس مبارک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کا نام جماعتِ اسلامی ہے، جماعت کا مقصد انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا بول بالا کرنا تھا، انسانی معاشرہ کا زندگی کے تمام تر شعبوں میں اسلام کی رہبری قبول کرنا’ جماعت کا نصب العین تھا، مولانا مودودیؒ نے اپنی بقیہ زندگی اسی تحریک کے لیے وقف کردی، اس تحریک نے سوئے ہوے انسانوں کو جگایا، اسلام کی آفاقیت کا درس دیا اور اسلامی قومیّت کا پیغام سنایا، باشعور طبقہ اس مانوس صدا سے متاثر ہوا.

پروانے شمع کی طرف لپکے، مئےخواروں کی محفل میں شرابِ کہن کا دور چلا، فکری بیداری، ذہن سازی اور مسلک و مشرب سے اٹھ کر مسلم قوم کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ پیدا ہوا یہ الگ بات ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی راستے میں کانٹے بچھائیں، دامن پر کیچڑ اچھالا، روایت پسندوں نے کفر تک کے الزامات لگائے مگر وہ مردِ قلندر کبھی راہِ استقامت سے نہیں ہٹا، اپنوں سے لڑنے کے بجائے اس نے مستشرقین کے حملوں کا جواب دیا، پردہ، جہاد اور نظامِ حکومت پر صرف دفاعی باتیں نہیں کی بلکہ اس کے فوائد اور حکمتیں بھی بیان کیں مزید پیش قدمی کرتے ہوے تہذیبِ حاظر کے کھوکھلے پن پر تنقید کی۔ ان کی تحریروں اور تصنیفات سے سارے عالم نے استفادہ کیا، کئی تحریکوں نے حوصلہ پایا، کئی شخصیات نے اپنی راہ بدلی اور کتنے ہی بھٹکے ہوے مسافر اپنی منزل پر پہونچے.

جماعتِ اسلامی حق پسند، بیباک اور مکمل اسلام کی ترجمان تحریک تھی جس کی وجہ سے اس کا ہر ایک کارکن فعّال، منظّم، گردوپیش کے حالات سے واقف، قوّت برداشت کا حامل ہمیشہ پیش قدمی کرنے والا مجاہد ہوا کرتا تھا۔ آج 26 اگست ہے یعنی جماعت کا یومِ تاسیس’ اپنی تنظیم یا تحریک کے یومِ تاسیس پر روایت پسند جشن منایا کرتے ہیں تو وہیں حسّاس اور سنجیدہ انسان محاسبہ کرتے ہیں، جماعت کے ہر ایک کارکن کو آج یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا آج وہ اسی خط پر چل رہے ہیں جسے علّامہ مودودیؒ نے کھینچا تھا؟ کہیں جماعت بھی دیگر تحریکوں کی طرح روایت پسند تو نہیں ہوگئی؟ کہیں وہ شخصیت پرستی کی ڈگر پر تو نہیں چل پڑے؟

یومِ تاسیس کے موقع پر یہ بات بھی برملا کہنا چاہتا ہوں کہ آج تحریک سے جڑے کئی افراد بھی مولاناؒ پر ظلم کرتے ہیں، ان کے مخالفین کی کتابوں، رسالوں یا مضامین کو پڑھ کر یا تقاریر کو سن کر مولانا کے تئیں بدظن ہوجاتے ہیں، ان سے مکمل براءت کا اظہار کرتے ہیں، اپنی ہی تنظیم کے بانی سے تحریک’ براءت کا اظہار کرلے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ تحریک اپنی اصل سے ہٹ گئی ہے، اپنے راستے سے منحرف ہوگئی ہے، اپنے مقاصد کو پسِ پشت ڈال چکی ہے یا اس میں ترمیم کرچکی ہے، مولانا مودودیؒ سے فروعی مسائل میں اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر ان سے مکمل براءت کا اظہار کرنا تشویش کا باعث ہے۔

ایک آخری سوال یہ ہے کہ ایک انسان نے اپنی تصنیفات، تقاریر اور نہایت کم افرادی قوّت کی تحریکی جدوجہد کے ذریعہ سارے عالم کو متاثر کیا تھا’ آج جب اس کے شیدائی اور تحریک کے کارکن ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ہیں، وسائل بےشمار ہیں تو وہ کیوں انسانی معاشرہ پر خاطرخواہ اثرانداز نہیں ہورہے ہیں؟
نوٹ: – محاسبہ میں خامیاں دیکھی جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!