حالاتِ حاضرہمضامین

حالات منفی باتوں کی اجازت نہیں دیتے، مستقبل مزید تاریک ہونے کا خدشہ!

محمد قاسم ٹانڈؔوی

بات دو نظریاتی ہے ہی نہیں جس سے کہ اختلاف کیا جاسکے، بلکہ بات سو فیصدی سچ اور مبنی برحقائق ہے کہ آج ہمارے ملک ہندوستان کے حالات ہمارے حق میں انتہائی مخدوش اور نازک بنے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے سر پر سخت امتحان و آزمائش کی سیاہ گھٹائیں منڈرا رہی ہیں اور آبادی کے لحاظ سے ملک کی چودہ فیصدی عوام آج بھی خود کو اسی مقام پر کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہیں، جہاں تقسیم وطن کے وقت مسلمان کھڑا تھا جس کے بارے میں آج کے بیشتر مسلمانوں نے اپنے بڑوں کی زبانی سن رکھا ہے؛ جہاں ایک طرف محمد علی جناح اور ان کے حمایتیوں کی قلیل تعداد تھی جو قیام پاکستان کے نعروں سے فضا گرم کئے ہوئے تھی اور دوسری طرف گاندھی و آزاد کے ہمراہ بڑی مقدار ایسے لوگوں کی تھی جو ملک کی آزادی، سالمیت و ثقافت اور قومی یکجہتی کے تحفظ کی خاطر محبت وطن سے سرشار جذبہ اور برادرانہ الفت میں رنگے ترانوں سے اپنی قوم و ملت کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے خوابوں سے شرابور تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی پرزور مخالفت پر ڈٹے اور جمے ہوئے تھے، جس کی شہادت مولانا آزاد کا وہ بلیغ و مختصر خطبہ آج بھی پیش کرتا ہے جس کو مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر عوام الناس کے روبرو دیا تھا اور پاکستان کی طرف کوچ کرتے قافلوں سے سوالیہ انداز میں کہا تھا کہ اپنے آباؤ اجداد کے تعمیر کردہ مقامات کو یہاں کس کے حوالے کر کے جا رہے ہو؟چنانچہ تقسیم وطن کے مرحلے سے لےکر قیام پاکستان تک اور اس کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کی راہیں مسدود و محدود کرنے تک مولانا آزاد کا موقف مخالفت پر مبنی تھا۔ کیونکہ مولانا آزاد نے اپنی عقابی نظروں سے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ اگر ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہو جاتی ہے تو پھر نہ تو اُدھر اسلام محفوظ رہےگا اور نہ اِدھر مسلمان مامون و محفوظ رہیں گے۔ الغرض نقصان دونوں طرف اپنا ہی ہوتا نظر آ رہا تھا مولانا آزاد کو۔

چنانچہ اگر دونوں خطوں کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ:”مولانا آزاد اس وقت جس اندیشہ اور خطرہ کا اظہار کر تقسیم وطن کے نہ صرف سخت مخالف ہوئے تھے بلکہ مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر تحریک مخالفت کے سربراہ و سرپرست کا کردار نبھا رہے تھے؛ وہ یقینا مرد دانا اور بالغ فکر و نظر رکھنے والی صفات کا مظہر تھے”۔ مگر شاید قدرت کو منظور ہی کچھ اور تھا جو مسلمانوں کے ضمیر پر مولانا کی یہ للکار و پھٹکار دستک نہ دے سکی، اور اس وقت کی عدم توجہی کے نتائج و عواقب آج ہمارے سامنے ہیں جن سے شاید نہ تو عوام پاکستان ناواقف ہوں اور نہ ہی ہندوستانی مسلمان کی چشم کشا سے کچھ ڈھکا چھپا ہو؟کیوں کہ بحیثیت قارئ اخبارات ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ:”کیا تو مفکرین و مبصرین اور کیا تجزیہ نگار و قلم کار اور شعراء و ادباء سب کے سب بلا تفریق مذہب و ملت اس ملک کے عام شہری ہونے کے ناطے ملک کے موجودہ حالات اور داخلی و خارجی پالیسیوں کو لےکر گذشتہ ساڑھے چھ سالوں سے خلاصہ کر جس طرح  تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور حکمران وقت کے سایہ تلے رچی جانے والی تعصبات پر مبنی سازشوکا پردہ چاک کر رہے ہیں یقینا ان تمام کو پڑھ سن کر حیرت و اضطراب کی لہر کا دوڑنا لازم آتا ہے۔ چنانچہ ہر وہ آنکھ جس میں حالات کو بھانپنے کی صلاحیت، من کی باتوں کو پرکھنے کی صفت اور ٹی وی چینلز میں بیٹھنے والے نیتاؤں کی طرف سے آنے والی زہر آلود گفتگو کے سیلاب کو گہرائی و گیرائی کے ساتھ پڑھنے کی خصوصیت پائی جاتی ہو وہ بھی اور ہر وہ دل و دماغ بھی جو شخصیت پرستی (اندھ بھکتی) اور ذاتی مفادات سے خالی ہو، انہیں اس طرح جمہوریت کی مرتی روح ہر آن بےچین و بےقرار کئے ہوئے ہوگی”۔

ایسے میں سادہ دل عوام کے رو برو حقائق و نظائر آجانے سے مسلم سماج کے تحفظ اور در پیش مختلف مسائل کے تئیں غیر یقینی صورتحال کا پایا جانا بھی یقینی ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ ملک کو انگریزوں کے جبر و تسلط سے پاک کراکر آزادی دلانے اور ملک ہندوستان کو خود مختاری کے دائرے میں لانے کےلئے ہمارے اکابر و مجاہدین کی قربانیوں کی ایک ایسی طویل داستان ہے، جسے کسی ایک کالم یا مضمون میں نہیں سمیٹا اور بیان کیا جاسکتا اور جنگ آزادی کی جو دوسو سالہ کربناک و درد ناک تاریخ میں ہمارے بزرگوں کی طرف سے بےپناہ جان و مال کا نذرانہ پیش کیا گیا تھا ان تمام کے احاطے کےلئے مستقل کتابیں، خصوصی نمبروں کی اشاعت اور رسائل و جرائد کا اجراء و اہتمام ملت کے معتبر اداروں کے زیراہتمام تسلسل کے ساتھ جو اب تک کیا جاتا رہا ہے، وہ سب بھی جنگ آزادی کے دوران پیش آئے تمام پہلوؤں کو احاطے میں لانے سے عاجز و قاصر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ ہیں جو سماج میں مایوسی کی لہر پیدا کرنے کی غرض سے ایسے منفی انداز سے تبصرہ کرتے پائے جاتے ہیں جس سے ہمارے علماء کرام کی قربانیوں اور مجاہدین آزادی کی محنت و جستجو پر حرف آتا ہے۔

ہم یہ مانتے ہیں کہ آج مختلف شعبوں اور آئینی عہدوں پر فائز اہم شخصیات کی نیت ہمارے تئیں مخلصانہ نہیں ہے اور ان کی مادی طبیعتیں ہمارے وجود کو برداشت کرنے کو راضی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے عدل و انصاف میں تاخیر کے ساتھ ساتھ بہت سے مواقع پر ناانصافی بھی برتی جا رہی ہے، میدان سیاست کے حق گو اور صاف ستھرے مزاج کے حامل اشخاص کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے، ہمارے نوجوانوں کےلئے تعلیم کی راہیں مفقود اور ترقی کے وسائل میں دھاندلی برت کر ان کی اگلی منازل کو تنگ و تاریک کیا جا رہا ہے، آئین و دستور سے جو مراعات و حقوق ہمیں حاصل ہیں ان کو ختم یا کم کرکے اپنے ان تمام خفیہ ارادوں کی تکمیل کی جا رہی ہے جس سے کہ یہاں سے اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے میں آسانی مہیا ہو سکے۔ حکومت وقت کے انہیں تمام مقاصد کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں، کہ: “کیا ہمارے بڑوں نے اسی لئے انگریزوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا اور ملک آزاد کرایا تھا، جہاں نہ تو ہمارا مال محفوظ ہے اور نہ ہماری جان؟ اور ناانصافی کی حد یہ ہےکہ آج ایک گائے کے مقابلے انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہ گئی ہے؛ آج کی ایسی آزادی سے تو پھر کل کی غلامی بہتر تھی”؟ وغیرہ۔

واضح رہے کہ یہاں ہم نہ تو موجودہ حالات کی نفی کر سکتے ہیں، اس لئے کہ ہر شخص شدت سے آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے محسوس کر رہا ہے کہ اس وقت حکومت کی باگ ڈور مکمل طور پر زعفرانی قیادت کے ہاتھوں میں ہے، جس نے اپنے مضبوط پنجوں سے عدالت و صحافت اور سیاست و ثقافت پر قبضہ کر ملک کو بڑی تیزی کے ساتھ ہندوراشٹر کی طرف ڈھکیلنا شروع کر دیا ہے، دوسرے نہ ہی ہم یہاں ایسے منفی جملوں اور سوچ رکھنے والوں کی تائید و حمایت کر سکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا اپنی روشن تاریخ اور اپنے اکابر و علماء کی بےمثال و لاجواب قربانیوں کا قتل کرنا ہوگا۔ اور ایسی فضول باتوں سے وہ لوگ سماج میں مایوسی کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایسے ناواقف لوگوں سے صرف یہی کہیں گے کہ وہ ایسا کہہ کر ایک تو اپنے اکابر و علماء کرام اور مجاہدین آزادی کی محنت پر پانی پھیرنا اور وقت کے بدنیت حکمرانوں کی اس سازش کو کامیاب بنانے میں معاون بن رہے ہیں، جو حکمراں جماعت اور سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے ہر پارٹی کی دیرینہ خواہش ہے۔ یعنی جنگ آزادی اور تاریخ ہند سے مسلمانوں کی خدمات اور قربانیوں کو نکال باہر کر دیا جائے۔ دوسرے یہ لوگ شاید آزادی جو غلامی کی ضد ہے؛ اس کے حقیقی معنی اور مفہوم ہی سے واقف نہیں ہیں جو آئے دن ایسی کمزور اور بےہودہ باتوں کو فروغ دینے میں اپنی علمی صلاحیت اور دماغی توانائی ضائع کرتے رہتے ہیں، ایسے تمام افراد کو  یکسوئی کے ساتھ اپنے اکابر اور علماء کرام کی مستند تحریروں اور کاوشوں کی طرف رجوع کر مطالعہ کرنا چاہئے، جنہوں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہوئے ہمارے لئے وافر مقدار میں مواد تیار کیا اور ان دونوں لفظوں کی حقیقت کو واشگاف کیا ہے، تاکہ قوم مسلم کے مستقبل کو مزید تاریک ہونے سے بچایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!