طوفانوں سے آنکھ ملاؤ، سیلابوں پر وار کرو…
محمد شہادت حیسن فیضی
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ، سیلابوں پر وار کرو
ملاحوں کا چکر چھوڑو، تیر کے دریا پار کرو
راحت اندوری مرحوم کا یہ شعر ان کی وفات 11/ اگست 2020 کو یاد کرتے ہوے مسلم نوجوانوں کی نذر ہے۔ مسلمانان ہند کی ناعاقبت اندیشی کو ایک مفروضہ واقعے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک شخص تھا جو بہت جلد چھت پہ پہنچنا چاہتا تھا،پھر کیا تھا اس نے دو دو سیڑھیاں ایک ساتھ چڑھنا شروع کردیا۔ اچانک اس کا پیر پھسلا اور اس کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئ۔اس نے اپنے تیمارداروں سے کہا کہ سیڑھی غلط بنی ہوئی تھی ،اس میں پیر رکھنے کی جگہ کم تھی اس لیے میں گرگیا۔ایک عرصے بعد اسے پھر چھت پر چڑھنے کی حاجت ہوئی، اس بار وہ اور بھی جلدی میں تھا،اس لیے اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر پھر سے دو دو سیڑھیاں چڑھنا شروع کردی، اورایک بار پھر اس کا پیر پھسلا ،لیکن اس بار وہ پیشانی کے بل گرا اور اسے ایسی کاری زخم آئی کہ جان پر بن آئی۔
وجہ یہ تھی کہ جب وہ پہلی بار گرا تھا تو اپنی غلطی کا احساس کرکے اس کی اصلاح کے بجائے سارا الزام اس نے سیڑھی اور سیڑھی بنانے والے پر ڈال دی تھی۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اپنی جان گنواں دی۔ بلا تمثیل کہنا یہ ہے کہ آج اس بیماری سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دوچار ہے۔اور کہیں نہ کہیں اس کے برے نتائج سے ہمارا معاشرہ جھوجھ رہا ہے۔اور قوم اپنے ہاتھوں خود تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ خود احتسابی کی عادت اب ہمارے اندر نہ رہی۔اور یہی وجہ ہے کہ،آزادی کے وقت مسلمان سرکاری ملازمت میں 10 فیصد سے زیادہ تھے، جو گھٹتے گھٹتے ڈھائی فیصد تک آگئے،لیکن ہم نےاپنی خود احتسابی کے بجائے اس کا سارا الزام سیاسی پارٹیوں پر ڈال کر خود کو بری کر لیا اور خاموش ہوگئے۔وہیں دوسری طرف آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے آزادی کے بعد سے ملک بھر میں کثرت سے اسکول،کالج،کوچنگ،ٹریننگ سینٹرز اور ایجوکیشنل کنسلٹینسیز قائم کیے،بالخصوص یوپی ایس سی کی پہلی باضابطہ کوچنگ انہی لوگوں نے شروع کی تھی،اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان کا تناسب سرکاری ملازمت میں سب سے زیادہ ہے۔
وہیں ہمارے لوگوں نے تو اسکول کالج وغیرہ تو قائم نہیں کیا اور اس پر طرہ یہ کہ اس طرف توجہ دینے کو بھی مغربیت اور مادہ پرستی قرارا دیا گیا، اوراسٹیجوں سے بس یہ تعلیم دیتے رہے کہ؛
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پہ تھے۔
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں۔
ہماری زبوں حالی کی داستان اس طرح شروع ہوئی کہ ہمارے سیاسی قائدین نے ہم سے ووٹوں کا سودہ اس طرح کیا کہ آپ ہماری پارٹی کو ووٹ دیجئے اور بدلے میں ہماری پارٹی آپ کی حفاظت کرے گی اور یوں سبز باغ دکھاکر ہمیں آج تک بہلاتے رہے اور انہیں کے شانہ بشانہ دینی لبادے میں ملبوس نام نہاد مسلم قائدین اپنے اسٹیجوں کے ذریعہ قوم کو نذرانے کے عوض جنت کا ٹکٹ اور ایمان کی سرٹیفکیٹ دے کر چلے گئے ۔اس طرح دونوں گروہوں نے ہمیں کچھ اس طرح لوٹا کہ؛
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
وطن عزیز کے وزیراعظم مسٹر نریندر مودی نے پوری دنیا کے ہندوؤں کا قائد بننے کے لیے سپریم کورٹ کی مدد سے مسجد کی جگہ مندر کی بنیاد بھی رکھ دی اور وہ ہندوتوا کا ہیرو بن گئے، ہندو اکثریت آج ان کی تعریف کر رہی ہے جوکہ حقیقت میں شخصیت پرستی ہے نہ کہ ملک پرستی،کیوں کہ اس واقعے نے دستور ہند کو بے وزن کیا ہے اور صرف ایک فرد یا جماعت کو خوش کیا ہے، جو کہ ملکی مفاد کے بالکل خلاف ہے ۔ تو دوسری طرف ہندستان کے درجنوں مساجد ویران پڑے ہیں یا بے حرمتی کے شکار ہیں، کئی مقدس مقامات ابھی دشمنوں کے نشانے پر ہے، ہندتوا کے “کاشی متھرا باقی ہے” کہ نعرہ ہمیں پریشان کر رہا ہے، جس پر کسی کو کوئی فکر نہیں؟ کیا ہمارے دوسروں کے بھروسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا روا ہے؟ کیا یہ غلط نہیں؟ یقینا غلط ہے۔اور اس طرح ہم اپنی غلطی دوسروں کے سر منڈھ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں۔
اپنا قصور دوسروں کے سر پر ڈال کر
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ حقیقت بدل گئی۔
مرحوم راحت اندوری صاحب نے انہیں ناعاقبت اندیش نیتاوں سے ہوشیار کیا ہے کہ ان نالائق ملاحوں کا چکر چھوڑو اور ان کے بھروسے اہل کارواں کی زندگی داو پر نہ لگاو۔بلکہ خود تیرنا سیکھو اور تیر کے دریا پار کرو۔اور ووٹ والے سیاست دانوں اور نوٹ والے اہل اسٹیج دونوں پر بھروسہ کرنا بند کرو،یہ دونوں تمہیں دین و دنیا دونوں میں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس لیے جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئی ہیں ان پر اشک ندامت بہاو، اپنی خود احتسابی کرو اور بار بار کرو، تاکہ تمہیں خود اعتمادی کی انمول دولت حاصل ہوجائے اور تم دوسروں کے بہکاوے میں نہ آسکو۔ تعلیم و تعلم سے اپنا رشتہ ہمیں مضبوط کرنا چاہیے۔ مساجد مدارس اسکول کالج اور ٹریننگ سنٹر قائم کیجیے ،تعلیمی تحریک شروع کیجیے۔ تاکہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بتدریج بحال کر سکیں۔
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں سے تاج سر دارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
جائے افسوس یہ ہے کہ؛
واے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا (بانگ درا)
افسوس کہ مسلمانوں کی حکومت اور جاہ و حشمت چلی گئی اور اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ یے کہ اس نعمت عظمی کے رخصت ہو جانے پر کسی کو افسوس نہیں رہا۔ زندہ قومیں اپنا کھویا ہوا عروج دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ ہندوستان کے مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانا تو درکنار غیروں کی غلامی میں اتنے مست ہیں کہ انہیں اپنی شان و شوکت کے لٹ جانے کا ذرا بھی افسوس نہیں رہا۔