خبریںقومی

نئی تعلیمی پالیسی وفاق اور آئین مخالف: ایس آئی او

نئی دہلی: 29/جولائی (پریس ریلیز) ملک کی مشہور طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کے قومی صدر لبید شافعی نے بتایا کہ بدھ کے روز یونین کابینہ کے ذریعہ منظور شدہ نئی تعلیمی پالیسی (NEP) ٢٠١٩ کا نظر ثانی شدہ مسودہ وفاق مخالف، آئین مخالف اور بھارت میں تعلیم کا بازاری کرن کرنے کا پروانہ ہے۔

بدھ کو جاری کردہ ایک بیان میں تنظیم نے کہا ہے کہ اس نے NEP 2019 کے ذریعے تعلیم کے بھگواکرن اور تجارتی کرن سمیت مختلف امور کے بارے میں وزارت براے ترقئ انسانی وسائل (MHRD) کو تفصیلی سفارشات بھیجی تھیں۔ تاہم پالیسی کے نظر ثانی شدہ مسودہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں بیشتر اہم تجاویز کو حکومت نے نظرانداز کردیا ہے۔

شافعی نے کہا کہ یہ پالیسی ہندوستان میں تعلیم کے بڑھتے ہوئے تجارتی کرن کے سلسلے میں متضاد رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ “اگرچہ اس مسودے میں تعلیم کے عام عوام کے لیے ہونے کی بات کی گئی ہے، لیکن یہ تعلیم کے ایک کاروبار کی  شکل میں پیش کررہی ہے۔ یہ بہت سے ان اقدامات کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے جن کی وجہ سے تعلیم کا تجارتی کرن ہورہا ہے۔ پالیسی تعلیم کے مارکیٹ ماڈل کو پیش کرتی دکھائی دے رہی ہے،”شافعی نے مزید کہا۔

تنظیم کا خیال ہے کہ یہ پالیسی ‘سنسکرت کا مطالعہ اور اس کے وسیع لٹریچر کا علم’ وغیرہ  تعلیم کے بھگواکرن کے دروازے کھول رہی ہے، اور جان بوجھ کر اس شاندار کثیر ثقافتی ورثے کو نظر انداز کررہی ہے جو ہندوستان اور اس کی تاریخ رہی ہے۔ “جس طرح مسودہ پالیسی کے ذریعے اقلیتی اسکالرز، ان کے علمی تعاون اور ثقافت کو نظرانداز کرکے آزادی، مساوات اور تکثیریت جیسے آئینی اقدار سے صرف نظر ایک مکروہ عمل ہے۔ کسی خاص زبان پر زیادہ زور دینا آئین کے منافی ہے۔ اور ہندوستانیکی وفاقی روح کے خلاف ہے،” شافعی نے کہا۔

طلبہ تنظیم نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ پالیسی کے تحت راشٹریہ شکشا آیوگ (RSA)، نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (NTA) اور نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن (NRF) جیسے مرکزی اداروں کی تشکیل بھی ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے اور آئین کے خلاف ہے کیونکہ تعلیم  کا شعبہ ریاست اور مرکز دونوں سے متعلق ہے۔ شافعی نے کہا کہ اس طرح کی زیادہ طاقت  رکھنے والی مرکزی تنظیمیں لامحالہ حکمران جماعتوں کی سیاسی خودغرضی کا شکار ہوجائیں گی۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ پالیسی مساوات اور سب کو شامل کرنے کی بات تو کرتی ہے، لیکن سماج کے پچھڑے طبقات کی شمولیت اور نمائندگی کے لیے کسی ٹھوس اقدام میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ شافی نے یہ بھی کہا کہ تمام نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں بشمول IITs، IIMs اور سینٹرل یونیورسٹیز میں ریزرویشن کی مانگ کو بھی پالیسی سازوں نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!