آواز: عوام سےایڈیٹر کے نام

فیروز بخت کا بدبختانہ بیان، انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت

ساجد محمود شیخ، میراروڈ ممبئی

مکرمی!

 مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر فیروز بخت احمد کا ایک بیان سامنے ہے جس میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو مشورہ دیا ہیکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھتے ہوئے رام مندر کی تعمیر میں بطور کارسیوک شریک ہوں۔ اُن کا یہ بیان انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ یہ مسلمانوں کے عقیدۂ توحید کے بر خلاف عمل ہوگا کیونکہ مسلمان کبھی مشرکانہ رسوم میں شریک نہیں ہوسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان سمیت انصاف پسند حلقے بھی اس عدالتی فیصلے سےغیر مطمئن ہیں۔

بخت کا یہ بیان مسلمانوں اور انصاف پسندوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے جیسا ہے ۔ یقیناً انھوں نے یہ بیان حکومت کو خوش کرنے کے لئے دیا ہے۔ مگر مسلمانوں کو اُن کے بیان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔گنگا جمنی تہذیب کی بقاء کے لئے ہمیں کسی پوجا میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان کے مسلمان روادار،انصاف پسند اور سیکولر ہیں اور قدرتی آفات اور مصیبت میں بلا تفریق مذہب و ملّت  اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ حالیہ وباء کے دور میں بھی کئی ایسی مثالیں سامنے آئیں ہیں کہ ہندو بھائی کے جنازے کو مسلمانوں نے کندھا دیا ہے۔ دکھ سکھ میں مسلمان اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔

ہم مسلمانوں کو اپنی رواداری اور سیکیولر ازم دکھانے کے لئے اتنا جھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ عمل ہماری دینی شناخت اور اسلامی ثقافت کو نقصان پہنچانے والا ہے ۔ فیروز بخت صاحب اپنا مشورہ اپنے پاس رکھیں۔ ہمیں اُن کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ شعر اُن کے پیشِ خدمت ہے۔      

اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!