سماجیمذہبیمضامین

قربانی کیوں! قربانی کی اصل روح کو سمجھیں مسلمان

مرزا انور بیگ، میرا روڈ۔ تھانہ

عیدالاضحی کے دن اور اگلے دو یا تین دن قربانی کرنا واجب ہے ہر اس شخص پر جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ ایک یا ایک سے زیادہ بکرے، دنبے بھیڑ گائے بیل بھینس یا اونٹ پر قربانی کی جاتی ہے۔
قربانی کا عمل اخلاص کا متقاضی ہے کیوں کہ اخلاص کے بغیر کوئی عمل اللہ کے حضور قابل قبول نہیں جبکہ قرآن میں خصوصی طور پر قربانی میں اخلاص کا ہونا بیان کیا گیا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ اللہ کو
” نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون بلکہ تمہارا تقوی “

لَن

ہرگز نہیں

يَنَالَ

پہنچتا

ٱللَّهَ

اللہ کو

لُحُومُهَا

ان کا گوشت

وَلَا

اور نہ

دِمَآؤُهَا

ان کے خون

وَلَٰكِن

لیکن

يَنَالُهُ

پہنچتا ہے اس کو

ٱلتَّقْوَىٰ

تقوی

مِنكُمْۚ

تم میں سے

كَذَٰلِكَ

اسی طرح

سَخَّرَهَا

اس نے مسخر کیا اس کو

لَكُمْ

تمہارے لیے

لِتُكَبِّرُوا۟

تاکہ تم بڑائی بیان کرو

ٱللَّهَ

اللہ کی

عَلَىٰ

اوپر اس کے

مَا

جو

هَدَىٰكُمْۗ

اس نے ہدایت دی تم کو

وَبَشِّرِ

اور خوشخبری دے دو

ٱلْمُحْسِنِينَ

احسان کرنے والوں کو

نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو۔

یہاں قربانی کے تعلق سے یہ واضح کر دیا گیا کہ قربانی دراصل ہے کیا اور اس کی روح کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا کہ جو قربانی کے لیے جانور مخصوص کیا گیا ہے اس کو اللہ نے ہمارے تابع کر دیا ہے اور اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو یعنی بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر اسے ذبح کر دو۔ یہاں تک کا عمل اگر اللہ کی رضا کے لئے بغیر کسی ریا کاری اور دکھاوے کے لئے ہے تو قربانی ہوگئی۔

قربانی کی حقیقت کو حاصل کرنے کے لئے رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : جو آدمی قربانی کرے گا اس طرح سے کہ قربانی کرتے وقت اندر سے اس کا جی خوش ہورہا ہو کہ میں اللہ کے راستے میں قربانی پیش کررہا ہوں اور اپنی قربانی پر ثواب کی امید بھی رکھتا ہو ”کانت لہ حجابا من النار ” تو یہ قربانی اس کے اور جہنم کے بیچ میں حائل ہوجائے گی ، رکاوٹ بن جائے گی (الترغیب والترہیب ) نبی پاک ﷺ نے اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائیں ہیں :

(۱) کوئی بھی عمل اللہ عزوجل کے سامنے جب انسان پیش کرے تو خوش دلی سے پیش کرے اور دل وزبان پر یہ ہوا کہ اے اللہ ! تیرا شکر ہے ، تیرا احسان ہے ، فضل وکرم ہے کہ تو نے مجھے اس عمل کی توفیق عطا فرمائی ہے

(۲) ثواب کی امیدر کھے کہ اللہ عزوجل اس جانور کو اس کے اور جہنم کے درمیان رکاوٹ بنادیں گے، ایک دوسری حدیث کے میں آتا ہے کہ یہ جانور پل صراط پر اس کے لئے سواری بن جائے گا۔

ان وضاحتوں سے یہ معلوم ہوا کہ قربانی کا عمل بس اتنا ہی ہے کہ اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ جانور کو ذبح کردینا۔ اس کے بعد گوشت کا کیا کیا جائے یہ احکامات قربانی میں شامل نہیں ہیں۔
آج کل اس موضوع پر کافی کچھ بحثیں اور باتیں سامنے آتی ہیں کہ
قربانی کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟
کس کس کو دیا جائے؟
کیا غیر مسلم کو دے سکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

دراصل قربانی کے بعد ظاہر بات ہے کہ اس گوشت کو ٹھکانے لگانا بھی ضروری ہے اور اللہ کی نعمت کو ضائع کرنا اللہ کی ناشکری بھی ہے اس لئے نہ ہم اس پورے گوشت کو عموماً رکھ سکتے ہیں نہ پھینک سکتے ہیں اس لئے اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا جائے۔ آپ کو جتنی ضرورت ہو رکھ لیں باقی تقسیم کردیں۔ پورا گوشت بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اپنے رشتے داروں میں، دوست احباب میں، پڑوسیوں میں اور غرباء ومساکین میں بھی اس کے لئے کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے کہ کتنا دیں۔ اسلام نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی کافی ترغیب دی ہے، احکامات دیے ہیں۔ اسی طرح غرباء ومساکین کے لئے ان کی مدد پر اکسایا ہے، پڑوسیوں کے حقوق بتاۓ ہیں تو ان تمام کو ذہن میں رکھتے ہوئے گوشت کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہمارے پڑوسی یا رشتے داروں کے گھر قربانی ہوئی ہے تو صرف اپنے بکرے کے گوشت کا مزہ چکھانے کے لئے ان کو نہ بھیجیں بلکہ یہ دیکھیں کہ کس کے گھر قربانی نہیں ہوئی ہے اس تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

اسی طرح قربانی کے گوشت کو غیر مسلم کو دینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ بہت سے غیر مسلم جو معاشی تنگی کا بھی شکار ہوتے ہیں وہ مسلمانوں سے امید لگائے رہتے ہیں کہ گوشت والی عید میں ان کو گوشت ملے گا۔ ہمیں یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ان کو بھی اس قربانی کی خوشی میں شریک کریں جس سے ان کے قلوب میں مسلمانوں کے خلاف بھری گئی نفرت بھی کم ہو سکتی ہے۔ میرا تو مشاہدہ ہے کہ وہ عیدالاضحی میں جس امید سے مسلمانوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ انھیں بھی گوشت سے نوازا جائے گا مگر مسلمان ادھر سے ادھر گوشت تقسیم کرتا پھرتا ہے اور یہ توفیق نہیں ہوتی کہ دو بوٹی ان کو بھی دے دیں۔

اس رویہ کے پیچھے وہ مصنوعی پابندیاں ہیں جو علماء نے لگا رکھی ہیں کہ پہلے اس گوشت کے تین برابر حصے لگائے جائیں۔ پھر ایک رشتہ داروں کے لئے فرض کی طرح رکھ دیا جائے، دوسرا غرباء کے لئے اور تیسرا تو اپنا ہے ہی وہ کہاں بانٹ سکتے ہیں۔ اس طرح بیچارے غیر مسلم کے ہاتھوں صرف اوجھڑی آتی ہے حالانکہ اسے بھی وہ خوشی خوشی قبول کر کے بڑی احسان مندی سے ہماری طرف دیکھتے ہیں۔

جبکہ قربانی کے دنوں میں کوئی مسلمان اوجھڑی کو نہیں پوچھتا عام طور سے پھینک دیتا ہے۔ یہ ہمارا کیسا احسان ہے اور کیسا اخلاق ہے؟ کیا اخلاق کے اسی اعلی معیار پر اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل ہوئی ہے کہ خود مٹن چاپ کوفتہ بریانی کھائیں اور ہمارے اطراف میں رہنے بسنے والے انسان اوجھڑی پر اکتفاء کریں۔
اس زاویے سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!