موجودہ حالات میں اساتذہ کا کردار: ریاستی صدر آئیٹا مہاراشٹر کا خطاب
ممبئی: آر-سی- جونیئر کالج آف ایجوکیشن (ڈی-ایل-ایڈ)، امام باڑہ، ممبئی نے آںٔیٹا کے اشتراک سے تقریری مقابلہ بہ عنوان ‘ موجودہ حالات میں اساتذہ کا کردار ‘ منعقد کیا۔ تقریری مقابلے سے قبل آںٔیٹا ممبئی کے صدر خالد فتح محمد شیخ اور مہاراشٹر آںٔیٹا کے صدر عبدالرحیم شیخ نے طالبات سے آن لائن بذریعہ گوگل میٹ خطاب کیا۔
خالد فتح محمد شیخ نے آںٔیٹا کا تعارف پیش کیا اور آںٔیٹا کے مقاصد واضح کیے۔ تعلیم اور آںٔیٹا کے مقاصد کے حصول کے لئے آںٔیٹا مختلف سر گرمیاں انجام دیتی رہی ہیں۔ آج کا پروگرام اور تقریری مقابلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ خالد فتح محمد صاحب نے زیر تربیت طالبات (مستقبل کے اساتذہ) کو بتایا کہ موجودہ دور مسابقت کا ہے۔ ایسی سرگرمیاں بچوں میں جوش اور تحریک پیدا کرتی ہیں۔انھوں نے طالبات کو مسلسل سیکھنے کی تلقین کی اور مشہور امریکی ماہر تعلیم Alvin Toffler کا یہ قول نقل کیا۔
The illiterate of twenty first century will not be those who can not read & write, but those who can not learn, unlearn and re-learn.
خالد فتح محمد کے تعارفی کلمات کے بعد مہاراشٹر آںٔیٹا صدر عبدالرحیم شیخ صاحب نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اپنے پر مغز اور بلیغ خطاب کی شروعات انھوں نے بابائے قوم مہاتما گاندھی جی کے مطابق تعلیم کی گئی تعریف کے ذریعے کی۔ ” تعلیم کا مطلب انسان کے جسم، ذہن اور روح کی خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ خواندگی نہ تو تعلیم کا آغاز ہے نہ خاتمہ۔ یہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے مرد اور عورتوں تعلیم یافتہ بنتے ہیں۔ بذات خود خواندگی تعلیم نہیں ہے۔”
موجودہ حالات کے تناظر میں صدر محترم عبدالرحیم صاحب نے فرمایا کہ تعلیمی عمل میں معلم کو درج ذیل کردار (صفات اور خوبیوں) کا حامل ہوناچاہیے۔
١- نظم و ضبط کا پابند
٢- تدریس میں ماہر
٣- تحریک دینے والا
٤- ساںٔنسی نقطۂ نظر کو فروغ دینے والا
٥- علم کی ترسیل کرنے والا
٦- طلبہ کا مستقبل سنوارنے والا
٧- وقت کے ساتھ بدلنے اور ہم آہنگ ہونے والا
٨- طلبہ کی کردار سازی کرنے والا
٩- جدید اقدار کو پروان چڑھانے والا
١٠- طلبہ کو مقابلہ جاتی دور / امتحانات سے واقف کرانے والا
١١- جمہوری طرز زندگی کا احترام کرنے والا
١٢- تحقیق کرنے والا (محقق)
١٣- دوست، فلسفی اور رہنما
انہوں نے مختصر مگر جامع خطاب کے ذریعے طالبات کو تحریک دی اور اساتذہ کا بھلا ہوا سبق یاد دلایا کہ اساتذہ کار پیمبری کے منصب پر فائز ہیں۔ معلم کو سب سے پہلے طالب علم ہونا چاہئے۔ اس میں متجسس ذہن، مطالعے کا ذوق اور علم کا شوق ہونا ضروری ہے، تبھی وہ طلبہ کی تعلیمی ترقی میں معاون بن سکے گا۔ اس کے دل میں طلبہ کے تںٔیں محبت، اپناںٔیت اور اعتماد کے جذبات ہونے چاہئیں۔ صحیح تعلیم محبت سے ہی دی جاسکتی ہے۔
علم دینا پیشہ نہیں ہے، اخبارات میں ‘ اساتذہ درکار ہیں’ کا اشتہار دینے سے استاد مل جاتا ہے لیکن طلبہ کو پیار و اخلاص سے علم دینے اور ان کی مکمل ترقی کے لئے کوشش کرنے والا ‘ معلم ‘ نہیں ملتا۔ معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی ضروریات اور دلچسپی کو دھیان میں رکھ کر تدریس کرے۔ اپنے خطاب کا اختتام صدرِ محترم نے افلاطون کے اس قول سے کیا، ” جاہل کی زندگی اور عالم کی موت پر دنیا ہمیشہ آنسو بہاتی ہے۔”
مذکورہ مقابلے میں سال اول سے خان شفانہ قمرالدین اور سال دوم سے شیخ رخسار محمد حسن کو اول انعام ملا۔ آںٔیٹا کی طرف سے مقابلے میں شریک ہونے والی تمام طالبات کو سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ مذکورہ پروگرام میں تمام طالبات اور اساتذہ کرام موجود تھے۔ مہمان جج کے طور پر آںٔیٹا ممبرا سے جناب اسلم شاہ موجود تھے۔ کالج کی پرنسپل محترمہ ساںٔرہ خان نے جج اور آںٔیٹا کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔