مذہبیمضامین

چھپا دیا ہے تابشوں نے آئینہ شعور کا…!

عامر فہیم، جالنہ

سخت گہری سرد اندھیری رات میں ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں نے موسم کی سختی میں اضافہ کردیا۔سرد لہروں کی دبیز چادر نے مہیب شب کی سنگینی میں خوفناک حد تک اضافہ کررکھا تھا۔سکوتِ شب کی سنگینی کو توڑتی ہوئی اللہ اکبر کی صداؤں نے فضاء کو توحیدی پیغام سے معطر کردیا۔۔۔اذان فجر سے نویدِسحر کے پیغام نے گھٹا توپ ظلمت کو منہ چِڑھایا۔ خوبصورت عالیشان مسجد،بلند و بالا مینار، صدر دروازے پر نمازیوں کا ہجوم لوگ سجدۂ شوق کی چاہ میں جوق در جوق مسجد میں داخل ہورہے تھے۔میں بھی دوگانۂ فجر ادا کرنے کی چاہت میں مسجد پہنچا۔۔

چپل جوتے رکھنے کے لئے خوبصورت اسٹینڈ  بنے ہوئے تھے جن پر لکھی گئی ہدایتیں توجہ کو مرکوز کررہی تھی پر حسب حال چپلیں ملت اسلامیہ کی حالیہ زبوحالی کی نمائندگی کرتی ہوئی ٹھوکروں میں منتشر پڑی ہوئی تھی۔۔خیر سے طہارت خانہ کا رخ کیا نظافت و نفاست نے دل خوش کردیا تاہم گٹکا خور طبقہ کی جانب سے سفید ماربل کو لال رنگ میں رنگنے کی قابلِ اعزاز و ستائش کاوشیں نمایا جھلک رہی تھی۔۔

لاکھوں روپئے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا خوبصورت حوض اور اس پر بنا ہوا عالیشان وضو خانہ دیکھنے والوں کی نگاہوں کو خیرہ اور نہ دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا تھا سردی کی مناسبت سے مصلیان کے لئے نیم گرم پانی کا انتظام تھا۔۔بہر کیف طہارت وضو سے فراغت کے بعد مسجد میں داخل ہوتے ہی موسم میں غیر معمولی تغیر محسوس ہوا کہ باہر زبردست سردی اور اندر ہلکی پھلکی گرمی۔۔واہ کیا بات ہے۔

زباں داد و تحسین پر مجبور ہوگئی۔ تحقیق پر معلوم ہوا مصلیان  کو موسم کی سختی سے بچانے اور نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لئے پوری مسجد میں روم ہیٹر نصب کئے گئے ہیں۔۔دل نے کہا سبحان اللہ ۔۔۔۔۔بہرحال دو رکعت سنت ادا کی  ٹھیک چھ بج کر پچپن منٹ پر جماعت منظم ہوئی امام صاحب کوئی بہت اعلی درجہ کے قاری معلوم ہورہے تھے منفرد لب و لہجہ اور خوبصورت آواز میں جب تلاوت شروع کی تو گویا کانوں میں رس گھول کر رکھ دیا۔۔پہلی رکعت میں سورہ حم سجدہ کے دورکوع تلاوت فرمائے ۔۔۔

وقال الذین کفرو لاتسمعو لہذالقرآن والغو فیہ لعلکم تغبلون
اور جھٹلانے والے کہتے ہیں اس قرآن کو مت سنو نہ سننے دو اور جب پڑھ کر سنایاجائے تو خوب شور مچاؤ تاکہ تمہیں غلبہ نصیب ہو

دوسری رکعت میں سورہ قیامہ اور رکوع سے اٹھکر قنوتِ نازلہ پڑھی گئی۔۔بندہ کی آواز میں سوز و گداز لطف و مستی درد و سرور پنہاں تھا۔۔۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد نماز ختم ہوئی حضرت نے دعا فرمائی غالب گمان یہ تھا کہ اب درس قرآن ہوگا کھچاکھچ نمازیوں سے بھری مسجد میں حضرت جی نے ضعیف من گھڑت روایتوں اور قصہ کہانیوں سے بھری پڑی روایتی نصابی کتاب کی تعلیم شروع کر دی جس میں جاڑے کے موسم میں رات میں اٹھ کر اندھیرے میں مسجد کی طرف مشقت برداشت کرتے ہوئے نماز فجر کے لئے آنے پر فضیلت عظمت اجر و ثواب اور جنت کی نعمتوں بشمول حور کے ملنے کا تذکرہ بڑی تاکید تلقین اور شد ومد کیساتھ کیا گیا تھا۔سبحان اللہ کی فضیلت اللہ اکبر کی عظمت اور لاحول ولا قوۃ پر ملنے والے جنتی خزانے کا تذکرہ تھا۔وہاں سود کی مذمت رزق حرام کی لعنت معاشرتی مسائل پر رہنمائی پاکیزگی طہارت نظافت اور تقوی اجتماعیت نظم اتحاد و اتفاق کی تلقین نہیں تھی۔۔۔

تعلیم ختم ہوئی اک بڑا مجمع مسجد کے باہر چلا گیا دس بارہ لوگ جو بعد میں بیس کے قریب ہوگئے تھے مسجد کے ایک گوشہ میں پھر سے اپنی مخصوص تعلیم اور مشورہ وغیرہ میں منہمک ہوگئے جن آوازیں شور کے قریب پہنچ رہی تھی۔۔۔میں قرآن لینے کے لئے جگہ سے اٹھا تو ایک ساتھی نے اشارۃ حلقہ میں جڑنے کی تاکید کی میں قرآن لیکر دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اس ساتھی کے چہرے کے ناگوار تاثرات صاف جھلکنے لگے شور و غل میں مشکل سے سورہ یس پڑھ پایا ملت کے حال پر فاتحہ پڑھی اور امام صاحب کی پہلی رکعت والی سورہ حم سجدہ کی مذکورہ بالا آیت پر غور کرتا ہوا وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔۔۔ کیا قرآن کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری نہیں؟ کیا قرآن سے بڑھ کر کسی اور کتاب کی تعلیم ہمارے لئے ضروری ہے؟

اسلام کے عائلی معاشرتی تعلیمی اخلاقی روحانی اور سیاسی و اقتصادی نظام کو سمجھنا ملت کے لئے ابھی ضروری نہیں۔۔؟؟ کیا حالات صرف فضائل بیان کرنے اور فضائل لالچ میں عمل پر ابھرنے اور ابھارنے سے حل ہونگے۔۔قرآنی ہدایات انبیائی عزیمت نبوی مشن اور اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی ذمہ داری ہماری نہیں ہے۔۔؟؟

خلوصِ بے شعور کی وہ زود اعتباریاں!
وہ شوق سادہ لوح کی حسین خامکاریاں!
نئی سحر کے خال و خد، نگاہ میں بسے ہوئے
 خیال ہی خیال میں، وہ حاشیہ نگاریاں!

جو دے گیا فریب وہ، شباب ڈھونڈھتا ہوں میں 
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں 

کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں 
وہ لعل و لب کے تذکرے، وہ زلف و رخ کے زمزمے 
وہ کاروبار آرزو ، وہ ولولے، وہ ہمہمے
 دل و نظر کی جان تھا وہ دور جو گزر گیا 
نہ اب کسی سے دل لگے نہ اب کہیں نظر جمے 
سمند وقت جا چکا رکاب ڈھونڈھتا ہوں میں 

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈھتا ہوں میں 
کہاں گئی وہ  نیند کی شراب ڈھونڈھتا ہوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!