ہماری آواز… ہمارے کان!
مرزا انور بیگ۔ میرا روڈ
تم دیش دروہی ہو۔ ہم غدار ہیں۔ تم پاکستانی ہو ۔ تم دیش سے محبت نہیں کرتے۔ تم آتنک وادی ہو۔ تم مین اسٹریم میں نہیں آتے۔ تم جاہل ہو۔ تمہاری سوچ گھٹیا ہے۔۔۔۔۔
نہیں صاحب ہم دیش دروہی نہیں ہیں نہ پاکستانی ہیں نہ آتنکی ہیں۔ ہم تو دیش سے بہت محبت کرتے ہیں۔ دیکھو ہمارے اخبارات دیش پریم سے بھرے ہوئے ہیں۔ دیکھو ہمارے لوگ ہر وقت دیش بھکتی کے گیت گاتے رہتے ہیں۔
یہ اور نہ جانے کتنے توضیحات ہم اپنے اخبارات میں شائع کرتے رہتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں پر غداری کا الزام لگا ہم نے زور و شور سے اس کی تردید کی اور ملک کے تئیں اپنی محبت کے قصیدے شائع کرنا شروع کردیا۔ ہم نے کوئی بڑے سے بڑا کارنامہ بھی انجام دیا تو ہمارے اخبارات نے انہیں خوب خوب پزیرائی دی۔ ہم نے 15 اگست ہو یا 26 جنوری خوب جھنڈے لہرائے اور مدرسوں نے ، ہمارے اسکولوں نے خوب خوب پریڈ کی سلامی دی۔ ہم نے ملک کی ترقی پر خوب بہترین سے بہترین مضامین لکھے، ترقی کے لئے مشورے دیے۔ آپسی بھائی چارے کی بات کی۔ ہندو مسلم اتحاد پر دھواں دھار تقاریر کیں اور ہمارے اخبارات نے شہ سرخیوں میں جگہ دی۔ ہمارے پاس ملک کی ترقی کا بھر پور مواد موجود ہے۔ کس طرح ملک میں امن و امان قائم کیا جائے تاکہ ملک ترقی کرے خوشحالی آئے اس کے لئے ایک عظیم منصوبہ موجود ہے۔
ہمارے پاس بہترین تجزیہ نگار، کالم نگار، نقاد، مبصر سب موجود ہیں
مگر صاحب ! اردو آتی کس کو ہے ؟ ہم پڑھتے ہیں عش عش کرتے ہیں کہ صاحب لکھنے والے نے کیا خوب لکھا ہے۔ واہ بھئی واہ۔ ہم کتنے بڑے محب وطن ہیں صاحب آپ سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔
مگر اردو آتی کس کو ہے؟ آپ کے خیالات، آپ کے تجزیے، آپ کے تبصرے، آپ کی تنقیدیں کس کے کانوں تک جاتی ہیں؟ نہ کسی غیر مسلم کو اردو آتی ہے کہ وہ آپ کا اخبار اٹھا کر آپ کے خیالات سے واقفیت حاصل کرے نہ کسی اور ملکی زبان کے اخبار آپ کو شائع کرتے ہیں تو برادران وطن تک کیسے آپ کے خیالات و مزاجات کی ترسیل ہوگی؟
یہی ہو رہا ہے۔ ہم لکھ رہے ہیں۔ ہم پرھ رہے ہیں اور ہم ہی خوش ہورہے ہیں۔ پھر شکایت یہ ہے کہ ہماری دیش بھکتی پر دوسرے انگلی اٹھاتے ہیں جبکہ ہم جھنڈے کو سلامی دیتے وہ ڈنڈے سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی شدید ہے کہ ہمارے صحافی کالم نگار قلمکار جو کچھ اردو میں لکھ رہے ہیں اس کا ترجمہ کرنے کا بھی اہتمام کیا جاۓ ملک کی تمام ریاستی زبانوں میں اور ان کے چھوٹے بڑے اخبارات تک پہنچایا جائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی جو لوگ ترجمہ کرسکتے ہوں وہ اچھے مضامین کا ترجمہ کریں اور اسے پوسٹ کریں۔ نیچے صاحب مضمون کا نام دیں اور مترجم کا نام بھی ساتھ ساتھ لکھیں۔ گروپ میں کوشش یہ ہو کہ سبھی ریاستوں کی نمائندگی ہو۔ ہندی، مراٹھی گجراتی، پنجابی، کشمیری، اریہ، بنگالی اور اسی طرح جنوبی ہند کی زبانی تک رسائی حاصل کی جاۓ اسی وقت ہم برادران وطن کی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔