بنتِ حوا کو آج بھی سکوں کہاں!
مفتی نظرالاسلام قاسمی، دربھنگہ
مذہب اسلام عدل وانصاف کو لیکر سب سے اولین علمبردار ہے اسلام ۔عدل وانصاف کو اور عادلانہ قانون کو جس طرح صفائی ستھرائی سے بیان کیا ہے یہ صرف زبان وکتب تک محدود نہیں بلکہ دور انحطاط میں عملی نمونہ اسلامی معاشرے میں دیکھا جا سکتا ہے ۔دور نبوی کے عادلانہ معاشرہ کی مثال دنیا پیش کرنے سے تو ہمیشہ قاصر رہے گی حضور پرنور عربی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے ساتھ عدل ومساوات تو دور انہیں ثری سے ثریا تک پہونچا دیا اور وہ تمام کے تمام حقوق میسر کئے جس کے وہ مستحق تھی نہیں تو اسلام سے قبل وہ صفحہ ہستی کی سب سے ذلیل وخوار مخلوق سمجھی جاتی رہی ظلم وستم نفرت وحقارت اس کا مقدر بن چکی تھی اشیاؤں کی طرح مارکیٹ میں بیچی اور خریدی جاتی تھی انتہا تو یہ کے ماہواری کے عالم میں عورتوں کو جنگل میں کسی درخت سے باندھ دیا جاتا اور بغیر کھانے پینے کے اسی حال پر چھوڑ دیا جاتا کتنے کی تو جان چلی جاتی اور عربوں کے ہاں بیٹیوں کے تعلق سے جو سب سے بھیانک اور کلیجہ چیڑ نے والا معاملہ جو ہوتا تھا
وہ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کا تھا اس پرفتن اور پر آشوب دور میں اسلام کا سورج نمودار ہوا شرک وبدعات ظلم وستم اور انتشار وخلفشار سے دوچار انسانیت کو قرار آیا ۔عورت جو ظلم وستم اور حق تلفی وذلت کی چکی میں پس رہی تھی اس سے اس کو رہائی ہی نہیں بلکہ معاشرے کی قابل قدر اور لائق احترام ہستی بن گئی اور اسلام کے سکہ کا دوسرا رخ یوں ظاہر ہوا کہ جس بیٹی کو زحمت شمار کیا جاتا وہ رحمت بن گئی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے کسی ایک روپ کے بارے میں ہی نہیں بتا یا بکلہ تینوں روپ کو بیان کیا اور فرمایا کہ لوگوں جس گھر میں بیٹی کی پیدائش ہو وہ والدین کے لئے رحمت ہے اور جب وہی بیٹی جوان ہوکر کسی کی بیوی بن گئی تو فرمایا نیک بیوی شوہر کے لئے جنت ہے اور جب وہی ماں بن گئی تو فرمایا میرے رسول نے ۔جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں ماہواری کے عالم میں ہوتی اور حضور میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے ۔پیغمبر کا زمانہ ہے مکہ کے اندر اک نوجوان بڑا خوبصورت بے پناہ حسن وجمال کا مالک دحیہ کلبی اتنے خوبصورت تھے کہ جب وہ راستہ پہ نکلتا تو عورتیں دروازے سے جھانکی مار کر دیکھا کرتی تھی اتفاق یہ ہوا کہ ایک مرتبہ اس جوان پر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑگئی نظر جیسے ہی پڑی شام کا سورج ڈھلا کائنات بستر پر گئی میرا محبوب بیت اللہ میں گیا اور حرم کے غلاف کو پکڑ کر رب کے دربار میں جھولی پھیلا ئ اور کہا کہ میرے مولا جب تو اسے اتنا حسین وجمیل بنایا ہے اور ظاہر کو اتنا خوبصورت بنایا ہے تو اس کے باطن کو بھی خوبصورت بنادے نہ اور اسلام کی توفیق دے دے۔
صبح ہوتے ہی حضرت دحیہ کلبی مسجد نبویؐ میں دستک دی حضور خوشی سے جھوم اٹھے آپ نے کہا دحیہ کلمہ پڑھ دحیہ کلبی نے کہا کہ یا رسول اللہ کلمہ تو پڑھ لونگا لیکن میں نے بہت گناہ کیا ہے ارشاد ہوا کیا گناہ ہے ۔دحیہ کلبی نے کہا یارسول اللہ میں اپنے گاؤں کا سردار اور اس وقت لڑکیوں کو دفن کرنے کا عام رواج تھا میں علاقے کا سردار کے ناتے ستر بیٹیوں کو دفن کیا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دحیہ اسلام لانے کے بعد اسلام کے قبل کئے ہوئے سارے کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں حضرت دحیہ کلبی نے کہا یا رسول اللہ اس سے بھی بڑا ایک پاپ کیا ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تجارت کے لئے ملک شام نکلا میری بیوی حمل سے تھی۔
جاتے وقت میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ سنو اگر پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہو تو اسکی پرورش کرنا اور اگر لڑکی تو دفن کردینا جب میں مہینوں کے بعد تجارت سے لوٹا تو دروازے پر دیکھا انتہائی خوبصورت بچی کھڑی تھی میں نے کہا تو کون اس بچی نے کہا میں اس گھر کے مالک کی بیٹی ہوں تو میں نے کہا میں اس گھر کا مالک ہوں پھر میں اپنی بیوی سے کہا یہ بچی کون ہے جواب دیا یہ وہی بچی ہے جو آپ میرے پیٹ میں چھوڑ کرگئے تھے دحیہ کلبی درباررسالت میں واقعہ بیان کررہے ہیں حضور کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہے دحیہ نے کہا یارسول اللہ میں نے سوچا کہ لوگ مجھے تانہ دینگے کہ دیکھو دوسروں کی بیٹی کو دفن کرتا ہے اور اپنی کو رکھتا ہے میں نے کدال ہاتھ میں لیا اور اسے لیکر جنگل کی طرف چل دیا جنگل پہونچ کر گڈھا کھودنا شروع کردیا۔
گڈھا کھودتے وقت بار بار وہ پھول سے بچی آکر کبھی ہمارے پسینے کو پوچھتی تو کبھی ڈاڑھی پر پڑے مٹی صاف کرتی اوربار بار کہتی رہی ابو کیوں اتنے پریشان ہو آؤ پیر کے سایہ میں بیٹھ جاؤ نہ اچانک میں اس بچی کے سر کے بال کو پکڑ کر گڈھا میں ڈال دیا وہ روتی رہی چلاتی رہی کہتی رہی مجھے چھوڑ دو مجھے معاف کر دو جب مٹی گردن تک پڑی تو میری طرف سے توجہ ہٹا کر رب سے مخاطب ہوکر کہنے لگی یا اللہ جلدی سے اس رسول کو بھیج دے جس زمانے میں بیٹیاں محفوظ رہے گی اتنا سننا تھا کہ رسول اللہ کی چیخ نکل گئی مسجد نبویؐ میں بیٹھے سارے صحابہ دھارے مارکر رونے لگے ۔
قارئین ابھی جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے دراصل اسلام کے قبل کا ہے اور عورتوں کے ساتھ جو کچھ بھی کیا جارہا تھا وہ سب دور جاہلیت میں کیا لیکن آج اس وقت ہم اپنے معاشرے اور سماج کو دیکھیں کیا اسی دور سے ملتاجلتا معاشرہ نہیں بن گیا کل میدان محشر میں بیٹیوں کے حقوق کے بارے اگر ان لوگوں سے سوال کیا جائے گا تو ہوسکتا ہے کے کہ دے مجھے کچھ پتہ نہیں نہ تو میرے پاس قرآن اور نہ ہی رسول ۔کیا آج اس وقت بھی ہمارا معاشرہ قرآن و حدیث سے خالی ہے جب ایسا نہیں تو کیوں عورتوں کے ساتھ ظلم وستم کیا جارہا ہے اور کل عربوں نے ظلم و ستم کے انتہاء کو روند دیا تھا تو آج اس وقت کہیں زیادہ ہی ہم ہیں اور عوام تو دور خواص بھی شامل ہیں آج اس وقت بیٹیوں کے اوپر کتنے طریق سے ظلم کیا جارہا ہے سب کا ذکر کرنا کسی ایک مضمون کے ذریعہ نامناسب معلوم ہوتا ہے ۔
پھر بھی ایک طریق وہ بھی ہے جس میں سب تو نہیں کم وبیش عالم فاضل مولانا مفتی حاجی و قاضی صاحبان بھی شامل ہیں اور وہ یہ کہ ہم نے بیٹیوں کو وراثت سے محروم کردیا زرا غور کیجئے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنی جائیداد میں بیٹیوں کو بھی شامل کرتے ہیں ضرورت ہیکہ معاشرے سے اس وباء کو ختم کیا جائے اور عورتوں کو رسول اللہ نے جس مقام پر کھرا کیا ہے ہم بھی اس مقام پر رکھتے ہوئے وہ تمام کے تمام حقوق میسر کریں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہے اور مساجد کے امام خطباء حضرات اپنی تقریروں میں ان موضوعات کو بھی شامل کریں ۔۔