شخصیاتمضامین

ڈاکٹرمصطفٰی السباعی: ایک تحریک، ایک مجاہد

سميع الله کشمیری

یہ انسانوں کی فطرت ہے کہ وہ قائد کی ذات سے خوش نہیں ہوتے اسی طرح یہ بھی ان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ قائدین اور دوسرے زمہ داروں کی سیرت و کردار کا نہایت باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں ایک زمانے میں لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں سے اکتا گئے تھے لیکن جیسے ہی یہ عظیم قائد دنیا سے رخصت ہوا ہر ایک شخص نے اپنا اپنا محاسبہ شروع کردیا۔لوگوں نے ان کی دوسری نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ان کی آنکھوں میں آپ رضی اللہ عنہ کے لئے الفت و محبت پیدا ہوگئی نقد و تنقید کی جگہ مدح و تعریف نے لے لی اور دشمن کے بجائے آپ کو ایک دوست کی طرح دیکھنے لگے۔اس وقت ان کو احساس ہوا کہ کتنی عظیم دولت تھی جس سے وہ محروم ہوگئے،کتنی عظیم ہستی تھی جو ان کے درمیان سے چلی گئی اور انھوں نے اس کی قدر شناسی نہ کی اسی طرح شیخ مصطفیٰ سباعی کا معاملہ بھی رہا انھوں نے ایک عظیم قائد کی طرح زندگی گزاری لیکن انتقال کے بعد لوگوں کو ان کی یاد کرنے کا موقع نہ مل سکا اور وہ معمولی کاموں میں مشغول ہوگئے۔

شیخ مصطفیٰ سباعی رحمہ اللہ 1915 ء میں شہر حمص کے ایک معروف علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان کئی پشتوں سے علم و فضل کے میدان میں معروف چلا آرہا ہے۔زندگی کے ابتدائی مراحل میں آپ اپنے والد شیخ حسن السباعی سے متاثر ہوئے وہ ایک جید عالم،مجاھد اور مصلح تھے م۔اس ہونہار اور ذہین قائد نے بچپن ہی سے علمی مجلسوں میں جانا شروع کردیا تھا اسی طرح آپ اپنے والد کے ہمراہ حمص کے جید علماء جن میں طاہر رئیس،سعید ملوحی،فائق الاتاسی،زاغب الوفائی،محمد النبی قابل ذکر ہیں کی مجلسوں میں بھی جانے لگے جہاں فقہ و حدیث کے باریک مسائل پر گفتگو ہوا کرتی تھی اس انداز پر یہ نوجوان پروان چڑھا اور اس کے ذہن و عقل کے پردے والد کی ہمت افزائی اور علماء کی صحبت کے نتیجے میں بہت جلد کھل گئے۔

آپ نے حفظ قرآن سے تعلیمی زندگی کی شروعات کى،شرعی و دینی علوم کا درس اپنے والد ماجد سے لیا پھر بالترتیب مدرسہ مسعودیہ ابتدائیہ اور مدرسہ ثانویہ میں داخل ہوئے 1930 میں یہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جامعہ ازہر سے منسلک ہوئے جہاں 1933 تک شعبہ فقہ کے طالب علم رہے بعد ازاں دینیات فیکلٹی سے منسلک ہوئے یہاں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد “اسلامی قانون سازی اور اس کی تاریخ” کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی.1945 میں شیخ سباعی نے دمشق میں امام شہید حسن البنا رحمہ اللہ کی قائم کردہ عالمی تحریک اخوان المسلمین کی ایک شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا۔1949 میں آپ نے اسلامی قانون سازی میں “سنت کا مقام اور اس کی اہمیت” کے موضوع پر اپنا علمی مقالہ پیش کیا۔

آپ نادر روزگار ہستی تھے آپ کی شخصیت ہمہ گیر تھی اور آپ ایسے منفرد قائدین میں سے تھے جو زمانے میں بار بار رونما نہیں ہوا کرتے۔آپ تحریک و دعوت کے میدان میں تحریک اخوان کے بانی شہید امام حسن البنا رحمہ اللہ کے ہم سفر تھے۔تحریک اخوان سے قبل شام کی اسلامی دعوت و تحریک کے میدان میں آپ نے اہم رول ادا کیا۔تحریک اخوان قائم ہونے کے بعد شام میں آپ نے اس کی ایسی مضبوط شاخ قائم کی جو مصر کے بعد تحریک اخوان کا بڑا مرکز شام ہی کو سمجھا جانے لگا۔مصر میں اخوان کے ایک اخبار میں جب حسن البنا اور شیخ سباعی کی تصویر شائع ہوئیں اور ان کے ذیل میں” قائد اور مرید” لکھا گیا تو حسن البنا نے اس پر اعتراض کیا اور عبارت کی تصحیح کرتے ہوئے آپ نے” القائد و اخوہ” یعنی قائد اور اس کا بھائی کردیا۔

آپ ماہر سیاست دان تھے صرف سولہ سال کی عمر میں جیل گئے جب آپ نے ملکی مسائل میں دلچسپی لی جو اس وقت فرانسی سامراج کے چنگل میں تھا۔آپ نے تحریر و تقریر دونوں کے ذریعہ جنگ کی۔آپ نے ہر جگہ اور ہر صورت میں اسلامی موقف کی ترجمانی اور حمایت کی۔شام کے پارلیمنٹ میں جب کہ آپ پارلیمانی امور کے نائب صدر تھے،جب آپ شامی دستور کو ترتیب دینے والی کمیٹی کے رکن تھے آپ نے کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلامی موقف کا سختی سے دفاع کیا۔

آپ نے سرزمین شام میں فرانسیسیوں کے خلاف اسلحہ بھی اٹھایا،فلسطین میں یہودیوں کے خلاف تلوار بھی اٹھائی مختصر یہ کہ آپ موجودہ زمانے کے عظیم سیاست دانوں میں سے ایک تھے ۔آپ نے پوری زندگی باطل کے خلاف کشمکش اور رزم آرائی میں گزاری،آپ کہا کرتے تھے:
“میری خواہش ہے کہ میں ایسی حالت میں مر جاؤں کہ اپنی زمہ داریوں کو ادا کررہا ہوں،میں بستر پر قضا و قدر کے مطابق مرنا پسند نہیں کرتا”
آپ ایک متبحر عالم و مصنف تھے،آپ تصانیف کے اعتبار سے معاصرین سے کافی آگے نکل گئے۔آپ کی کتابوں نے مسلمانوں کی نئی نسل کے اندر تحریکی و دینی سرگرمیوں کو پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

آپ کی تصانیف کم و بیش پچاس کے قریب قریب ہیں،یہ کتابیں علم و فن کی مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں جن میں فقہ، سیاست،اقتصادیات، اخلاقیات و اجتماعیت اہم موضوع ہیں۔آپ نے مستشرقین اور اسلام کے خلاف بغض رکھنے والے مغربی مفکرین کے شکوک و شبہات اور اعتراضات کا خاص طور پر جواب دیا ہے۔جس کی بین مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے دفاع میں لکھی گئی متعدد کتابیں ہیں۔آپ نے علمی وسعت فطری ذہانت اور شرعی سوجھ بوجھ کی بدولت 1950ء میں شامی دستور کی تشکیل کے وقت شریعت اسلامی کو موجودہ دور میں ایک قابل عمل دستور زندگی کی حیثیت سے پیش کیا۔

آپ نے تحریک اسلامی کے لئے وسائل اطلاعات و نشریات کو ضروری اسلحہ تصور کیا،آپ کا کہنا تھا کہ “صحافت کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت جس قدر عمدہ ہوسکتی ہے کسی اور زریعہ سے ممکن نہیں” چناچہ آپ نے 1947 میں مجلہ “منار” نکالا۔1955 میں اخوان سے مل۔کر”جریدة شهاب” اور “مجله المسلمون” نکالا۔پھر اس کے بعد حضارة الإسلام نکالا۔ شیخ سباعی کی زندگی ہمہ گیر تھی یونیورسٹی میں وہ پروفیسر،مسجد میں خطیب،اخوان کے آفس میں صدر اور اخبارات میں مقالہ نگار کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔آپ بس کے ذریعے حمص سے دمشق کا سفر کرتے۔

آج جب شیخ سباعی کا نام لیا جاتا ہے تو فوراً ہی تحریک اخوان المسلمین کے ایک عظیم قائد کا تصور سامنے آتا ہے جس نے شام میں تحریک اخوان کی داغ بیل ڈالی اور ایک طویل عرصے تک اس کے اطراف و جوانب میں اس کا جھنڈا لے کر گھومتے رہے۔
2 اکتوبر 1964 بروز سنیچر یہ روشن شعلہ ہمیشہ کے لئے بجھ گیا،مسلسل حرکت و سرگرمی کا سلسلہ ختم ہوگیا،قکم کی روانی ختم ہوگئی،شریں آواز خاموش ہو گئی،دنیا ایک عظیم صاحب دل و دماغ سے محروم ہوگئ۔اس مفارقت اور جدائی پر دلوں نے خون کے آنسوں بہائے،زبانیں گنگ ہوگئیں،انسانی عقل دنگ رہ گئی،ہزاروں لوگوں نے مرحوم کے گھر کا رخ کیا شاید کہ یہ خبر غلط ہو،لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوچکا تھا اور مشیت ایزدی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
اللہ تعلی ان سے راضی ہو۔
اقول قولي هذا واستغفر لي ولكم والله اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!