تحریک اسلامی اور اس کے اہداف
سميع الله، کشمیری
تحریک اسلامی،اسلامی نظام حیات کو دنیا میں غالب کرنے کی کوشش کا نام ہے۔یہ وہ کشمکش اور تصادم ہے جو باطل کے خلاف ہر دور میں جاری رہا ہے۔اسلام ہمیشہ سے ایک متحرک،توانا اور کامل نظام زندگی رہا ہے۔دور حاضر کی جدید علمی ترقیات،سائنسی ایجادات اور عقلی دلائل کے ذریعہ بھی اس کی صداقت ثابت ہوچکی ہے۔اسی ضابطے کو زندگی کے تمام شعبوں میں چلتا پھرتا دیکھنے کی خواہش اور کوشش کا نام تحریک اسلامی ہے۔تحریک عوام الناس کو تاریکی سے روشنی،گمراہی سے ہدایت،ظلمت سے نور،مظالم سے عدل و انصاف کی طرف اور دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں کی طرف منتقل کرنے کا عمل ہے۔یہ اسلام کے نام لیواؤں کو اسلامی اخلاق و کردار کا پیکر بناتی ہے،اپنے کارکنوں کے اندر دینی شعار اور اسلامی تہذیب و تمدن سے محبت کرتی ہے۔یہ مظلومین کو ظالموں کی قبا نوچنے پر ابھارتی ہے۔یہ دنیاوی خداؤں کی خدائی کا انکار اور خدائے واحد کی پرستش کا اعلان کرتی ہے۔تحریک اسلامی تمام غلامیوں کے خلاف اعلان بغاوت،تمام محرومیوں کے خلاف صدائے احتجاج اور تمام اندھیروں کے خلاف امید کی ایک روشن کرن ہے۔اس کی ابتداء نفس کے خلاف جہاد سے ہوتی ہے اور انتہا شہادت کی اعلی منزلوں پر پہنچ کر ہوتی ہے۔
تحریک اسلامی کے لئے منزل مقصود تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ اسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے پرخار وادیوں،دشوارگزار مراحل،جاں گسل آزمائشوں اور صبر آزما شدائد و مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔تحریک اسلامی ایک مسلسل کشمکش،لگاتار جدوجہد اور بے کنار سعی و عمل کا نام ہے۔یہ اپنے کارکنوں کو کسی منزل پر سکون و اطمینان سے بیٹھنے نہیں دیتی بلکہ ان کو سیمابی کیفیت میں مبتلا رکھتی ہے۔یہ اپنے جیالوں کو امن و عافیت کی تنہائیوں سے نکال کر رزم و بزم کے میدان میں لاکھڑا کرتی ہے۔
ہر زمانے میں تحریک اسلامی کا ایک ہی اصول رہا ہے وہ دولت دنیا کو ٹھکراتی،موت سے آنکھیں ملاتی،حاضر و موجود سے بے نیاز رب کائنات کی رضا کے حصول میں سرگرم عمل رہتی ہے۔اسلام کا سپاہی مال و زر کے توڑوں،دھمکیوں،تحریص کے پھندوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتا۔
انیسویں صدی عیسوی میں عثمانیہ خلافت کے زوال کے بعد عالم اسلام پر سامراجی قوتوں کا غلبہ مکمل ہوچکا تھا یورپی افکار و نظریات نے مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔مسلم نوجوان مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک دمک کے دام میں گرفتار ہوچکے تھے۔تمام مسلم ممالک اغیار کی ذہنی و عملی غلامی میں مبتلا تھے۔سیاسی،معاشی،تہذیبی اور دینی زوال کے سبب نئی نسل دینی شعار اور اسلامی تہذیب و تمدن سے کوسوں دور ہوچکی تھی۔
ان سامراجی قوتوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انھوں نے اسلامی نظام حکومت ختم کرکے سامراجی طرز حکومت کو جاری و ساری کردیا،رنگ و نسل اور قوم و وطن کے مسائل کو ابھار کر مضبوط اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا اور دیکھتے دیکھتے ایک مذہب،ایک قرآن اور ایک رسول کو ماننے والی مسلم قوم کے درمیان تفرقہ و فساد،جنگ و جدال اور بغض و نفرت کے شعلے بھڑکنے لگے۔عالم اسلام میں الحاد و لادینیت اور نصرانیت و صیہونیت کا زور بڑھتا گیا۔ثقافت و کلچر،تعلیم و تمدن،حکومت و سیاست،معاشرت و معیشت،زبان و ادب تمام چیزیں مغربی رنگ میں رنگ گئیں۔عربی زبان و ادب،اسلامی تہذیب و تمدن اور قومی و ملی انفرادیت کو ختم کرنے کی منظم سازشیں کی گئیں۔لیکن آخر کب تک!!
اللہ تعلی نے اپنی خاص مشیت کے تحت عالم اسلام میں اسلامی اسلامی تحریکیں بپا کیں جنھوں نے مغربی تہذیب کے پندار کو توڑ دیا،اسلام اور اسلامی تہذیب کو درپیش چیلنجوں کا منہ توڑ جواب دیا۔مصر ہو کہ مراکش،ترکی ہو یا انڈونیشیا،جزائر ہو یا شام،ہندوستان ہو یا افریقہ کے ساحلی ممالک غرضکہ عالم اسلام کے چپے چپے میں ایسی شخصیتیں نمودار ہوئیں جنھوں نے ان غیر اسلامی افکار و نظریات کو اپنے گھروندوں میں گھسنے پر مجبور کردیا۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی،شیخ حسن البنا،شیخ بدیع الزماں نورسی،علامہ مصطفیٰ السباعی،امام عبد الحمید بن بادیس،شیخ عزالدین القسام،شیخ احمد یاسین وغیرہ وغیرہ جنھوں نے اپنی بے مثال قربانیوں،انتھک کوششوں،کامل ایمان و یقین کے ذریعہ اسلام کی طرف واپسی کے عمل کو تیز تر کردیا۔انھیں کی محنتوں اور جانفشانیوں کا نتیجہ تھا کہ مغرب زدہ نوجوان اسلام کا خوگر ہوگیا۔اس کے اعتقاد و یقین کی روشنی واپس آگئی۔
ان ہستیوں نے اپنے اپنے علاقوں میں سامراجیت کے چھکے چھڑا دیئے۔انہوں نے اسلام پر دلنشین عام فہم اور مدلل کتابیں تصنیف کیں جنھوں نے مغربی مستشرقین کو اسلام کے متعلق پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کیا۔
نوٹ: اسلامی تحریکات کا مقصد تو ایک ہوا کرتا ہے لیکن مختلف علاقوں میں اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے طریقہ کار میں اختلاف ہوتا ہے جبکہ بنیادی اصولوں میں یکسانیت ہوتی ہے۔
وما توفيقي الا بالله والله اعلم بالصواب