سیاسیمضامین

آئندہ سال تک ہو سکتے ہیں کرناٹک میں اسمبلی انتخابات!

از: محمدیوسف رحیم بیدری
ریاست کرناٹک میں آیا آئندہ سال اسمبلی انتخابات ممکن ہیں؟یہ سوال آہستہ آہستہ ذہنوں میں پیدا ہورہاہے۔اس سوال کے پیداہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت کرناٹک نے کوویڈ۔ 19کاحوالہ دے کر اراکین اسمبلی اور کونسل سے ان کی تنخواہوں میں سے 30فیصد تنخواہ منہاکرلی ہے۔جو ایک حدتک اراکین اسمبلی اور کونسل کوگوارہ ہے تاہم ذرائع کے بموجب اس کے علاوہ ایک سال کی ترقیاتی رقم بھی حکومت نے جاری نہ کرنے کاعندیہ دے دیاہے۔ جب ایک سالہ ترقیاتی رقم جاری نہیں ہوگی اور اسمبلی حلقہ جات میں کام نہیں ہوگا تو عوام منتخبہ اراکین اسمبلی سے بدظن ہوسکتی ہے جس کا خوف اراکین اسمبلی کو لاحق ہے۔ اگر تعمیراتی کام نہیں ہوگا تو عوام کے علاوہ پارٹی ورکرس میں بھی بے دلی پھیلے گی۔

اسی درمیان کوئی دوسراسیاسی شخص کام اوررقم کالالچ دینے لگے تو پارٹی ورکرس کی بڑی تعداد راست اور بالراست اس شخص کے ساتھ نظر آئے گی اورجب الیکشن ہوگاتو ممکن ہے موجودہ اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو ہارکامنہ دیکھنا پڑ جائے۔ یعنی ایک سالہ رقم جاری نہیں کی گئی ہے اسلئے نیا الیکشن ضروری ہے۔ اسی درمیان یہ بات مشہور ہونے لگی ہے کہ بی ایس یڈیورپا کی بی جے پی حکومت نے خزانہ خالی کردیا ہے۔(یہ اور بات ہے کہ کمارسوامی حکومت نے ہی اس سے قبل کسانوں کے قرض معاف کرکے ریاستی خزانہ خالی کردیاتھا) خزانہ جب خالی ہوتاہے تو الیکشن لازم ہوجاتاہے خالی خزانہ کی بنیاد پر حکومت نہیں چلائی جاسکتی۔ وقت گذارناچاہیں بھی تو دقت ہوتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ خالی خزانہ کی بنیاد پر حکومتیں نہیں چلتیں۔ ایک اور جانب بی جے پی کا اندرونی مسئلہ بی ایس یڈیورپا کی قیادت ہے۔یڈیورپا کی قیادت پر اتفاق پارٹی کی مجبوری ہے لیکن اس مجبوری کو کچھ اور عرصہ تک لے کرچلاجائے ایسا ممکن نہیں ہے۔ کوویڈ۔ 19نے حالات کو مزید دگرگوں کردیاہے۔ اسلئے بھی نئے انتخابات ہونے چاہیے۔ یہ وہ امکانات،اور تجزئے ہیں جوودھان سودھا کے گلیاروں میں خود سیاست دان کررہے ہیں۔

ایک اور پہلو بھی سامنے رکھاجانا چاہیے۔کوروناوائرس کومسلمانوں نے پھیلایا ہے، یہ پیغام مرکزی اور ریاستی بی جے پی حکومتوں نے بڑے پیمانے پر بہر حال دیاہے۔ اس کے لئے سرکاری سرکیولر بھی نئے ڈھنگ اور طریقے سے استعمال کئے گئے اور سرکاری کاغذات میں درج کردیاکہ کوروناوائرس تبلیغی جماعت کے دہلی اجتماع میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے سبب پھیلا ہے۔ اب اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے کم سے کم وقت میں انتخابا ت اگر ہوتے ہیں تو اور بہتر ہوگا۔

ہم ایک اکثریت والی مستحکم حکومت دے سکتے ہیں جس میں صرف ایک وزیراعلیٰ ہو، کوئی نائب وزیر اعلیٰ نہ ہو۔ اور بھی باتیں ہیں جو سوچی جارہی ہیں۔ کئی ایک طریقے سے آنے والے حالات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ جس میں صرف انتخاب جیتنا ہی اہم ہے۔ ترقیاتی کام سے کوئی سروکار سیاست دانوں کو نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حالات انتخابات کی طرف جاتے ہیں یا انھیں معمول کے مطابق چلنے دیاجاتاہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!