لاک ڈاؤن میں عید
محب اللہ قاسمی
گونا گوں فضائل و برکات کے حامل، اللہ تعالی سے تعلق کو مضبوط کرنے والے تربیتی مہینہ رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل پر یکم شوال کو پوری دنیا کے مسلمان اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیےعید مناتے ہیں۔ یہ اسلامی تہوار ہےجیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :
’’ہر قوم کے لیے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘(مسلم)
اس وقت پورے ملک میں کرونا وائرس کو لے کر لاک ڈاؤن کا حکم نافذ ہے، جس کے سبب مساجد بندہیں مسلمانوں نے پورا نماز پنج گانہ اور تراویح گھروں میں ادا کی اور اب عید کی خریداری بھی متاثر ہے۔ اس لیے عید پر نئے کپڑے اور عید کے دیگر سامان بھی نہیں لیے جا سکے۔ کیوں کہ لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا ہوناحکومت کی جانب سے ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اسے بیماری کے پھیلنے کا سبب اور اندیشہ بتایا گیا ہے۔ اس لیے علمائے کرام نے عید کی نماز گھر پر ہی چار یاپانچ لوگوں کے ذریعہ ادا کرنے کی بات کہی ہے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مومنوں کا معاملہ ہر حال میں خیر کا ہے۔لہذا جیسے بھی حالات ہوں ایک اچھا مسلمان صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑتا۔تا ہم اس پریشان کن حالات میں بھی ہمیں عید کے دن خوشی کے اس موقع کو بالکلیہ فراموش کرنا ہے، رنج والم کی کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح زیب نہیں دیتا، کیوں کہ خوشی کے ایام میں خوش رہنا یہ فطری عمل ہے اور اسلام ایک فطری دین ہے ۔ ہم خوشی کے اس موقع کو حسب ہدایت منائیں گے۔
چوں کہ عید اسلام کا ایسا تہوار ہے جو اپنے دامن میں فضل ورحمت ، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لے کر ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقع ہے۔ اسی وجہ سے ہر سال اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیاجاتا ہے۔ علمائے کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاں منانا دین کی علامات (شعائردین) میں سے ہے۔صبح کو غسل کرنا، نیا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا،خوشیاں منانا،مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اِس دن کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔
اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن 5 ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ایک دن عید الفطر یعنی یکم شوال کا بھی ہے۔
لاک ڈاون کی اس مصیبت کی گھڑی میں ہمارے خوشی منانے کا انداز یہ ہونا چاہیے جس پر برسوں سے ہمارا عمومی عمل رہا ہے کہ اس عید پر ہم اپنے آس پڑوس میں کسی یتیم ، غریب بے بس اور محتاج کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑ یں گے، لاک ڈاؤن میں بہت سے لوگ دانے دانے اور کھانے پینے کے محتاج ہو گئے ہیں ۔ہم ان کے احوال دریافت کریں گے اورحتی الامکان ان کی ضرورتوں کو پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔جب ہم کسی کی ضرورت پوری کرتے ہیں تو اس سے ہمیں جو روحانی خوشی ملتی ہے ۔ ہمارے اس عمل سے ہمارا رب بہت خوش ہوتا ہے ،جو مسبب الاسباب ہے پھر وہ ہمارے اس عمل سے ہماری پریشانی دور کر دیتا ہے۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطرکا حکم بھی اسی لیے دیا گیاہے تاکہ نادار ، لاچار اور مستحقین بھی عید کی خوشی میں برابر شریک ہوسکیں اور کوئی مسلمان عید کے دن بھوکا نہ رہے۔
اسلام میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے قطع تعلق کی اجازت نہیں ، اسی طرح اس کے دل میں کینہ ،بغض وعداوت کے جذبات کی موجودگی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ خوشی کے اس دن میں جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں،نیالباس پہنتے ہیں ، اسی طرح ہمیں اپنے دل کی صفائی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کاخیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملہ میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم کا ارشادہے :
’’حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ چکائے ، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیاجائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔‘‘ (بخاری)۔
اس لئے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا و اقارب سے اگر ملاقات ممکن نہ ہو تو انھیں فون کریں ۔ خاص طور والدین سے اگر دور ہوں تو ان سے بات کریں اور ان کیلئے عید کے فرحت وسرور کا ممکن سامان مہیا کریں ۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عیدکو دوبالا کریتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی ٔ رزق اور عزوشرف کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔نبی کریم کا ارشادہے:’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)۔
*عید کی خوشی:*
عید کی خوشی کن لوگوں کے لئے ہے؟کیا اُن کے لئے جنھوں نے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیااور اس سے استفادے کے لیے کوئی لمحہ نہ نکال سکے، بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے ؟ نہیں ! بلکہ اِس دن کی خوشی کے مستحق وہ لوگ ہیں جنھوں نے رمضان کے روزے رکھے،قیام اللیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوش نودی کے لئے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعیٔ مسلسل کرتے رہے۔جیساکہ نبی کریم کا ارشاد ہے:
روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت(متفق علیہ)۔
جس طرح انھیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ،ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن خوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انھیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجرہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نیکوکاربندوں کے اجرکو ضائع نہیں کرتا بلکہ انھیں پورا پورا اجر عطا کرتاہے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ نیکوکار کے اجرکوضائع نہیں کرتا۔‘‘(توبہ120)۔
*عید کو وعید نہ بنائیں:*
یہ عبادت واطاعت درحقیقت اظہارتشکرہے، جس پر اظہار مسرت ہی’عید‘ ہے۔ اسی لئے عید کے دن بھی ہر وہ عمل جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ،محض جشن اور خوشی کے نام پر انجام دیناشکرگزاری نہیں، بلکہ ناشکری ہے،جو عذاب الٰہی اور وعیدکا باعث ہے نہ کہ عید کا،اس لئے ہم عید الفطر کے موقع پر یہ عہد کریں کہ جس طرح ہم نے ماہ رمضان کو عبادت واطاعت میں گزاراہے اسی طرح سال کے بقیہ ماہ بھی گزاریں گے، تاکہ رمضان المبارک کے عمل کاتربیتی عمل شمار کیاجائے نہ کہ محض خانہ پوری ہو ،اس لئے آنے والا ہر مہینہ ہمارے لئے امتحان کا ہوگا،پھر یہی جذبۂ اطاعت و شکرگزاری ہمارے لئے ہر روز عید کا سبب ہوگا۔جیسا کہ سیدنا انس بن مالک ؓ بیان فرماتے ہیں:
’’مومن پر گزرنے والا ہر دن جس میں اس سے گناہ سرزد نہ ہووہ’عید‘ کا دن ہے، وہ دن جب وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہو’عید‘ کا دن ہے ،جس دن قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوکرپل صراط سے گزرجائے وہ’عید ‘ کا دن ہے،وہ دن جب وہ جنت میں داخل کیاجائے ’ عید‘ کا دن ہے اور وہ دن جب وہ اپنے پروردگار کا دیدار کرے ’عید‘ کا دن ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں کو قبول فرمائے اور ہمیں راہ راست کی توفیق بخشے۔آمین۔