یہ طلبہ تنہا نہیں، ہر انصاف پسند اِن کے ساتھ ہے
از: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
ظلم کا حد سے گزر جانا زوال کی علامت ہے، ظالم کا طاقت وغرور کے نشے میں چور ہو جانا اسکی ہلاکت کی بشارت ہے، یہ لفاظی نہیں تاریخ ہے،اور تاریخ کا منفرد وصف ہے کہ وہ خود کو دہراتی ہے، اگر فرعون طاقت کے نشے میں خدائی کا دعویدار تھا تو تاریخ نے اسکی یہ بے بسی بھی دیکھی اور یہ منظر دیکھا کہ اسے پانی نے ڈبو ڈبو کر مارا، اگر ہٹلر دنیا کا ظالم ترین حکمراں تھا تو بالآخر وہ خود کشی پر مجبور ہوا، رومن امپائر اور پرشین امپائر کی تاریخ اور ان کے زوال کے اسباب تاریخ میں رکارڈ ہیں، برطانیہ جسکی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا آج وہ خود اپنے وجود کے بقا کی خاطر صہیونی لابی اور امریکہ کا دم چھلہ بنے رہنے پر مجبور ہے،سوویت یونین کے حصے بخرے ظلم کے بھیانک انجام پر دلیل ہیں، اور آج کل بچوں اور نوجوانوں کو خاص طور پر اس معاہدے کی تاریخ سے واقف کرانا ضروری ہے جس معاہدے میں دنیا کے طاقتور ترین ملک نے راہ فرار کی تلاش میں پہاڑوں کے دامن میں پلنے والے بوریہ نشینوں کے شرائط کو بسروچشم قبول کیا۔
ظلم کی یہی تاریخ فسطائیت کے علمبردار اس ملک میں دوہرا رہے ہیں،حکمران طبقہ در اصل ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے، وہ انسانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کر کے حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا مگر وہ بھول گیا تھا کہ اس ملک میں ایسے بھی ادارے ہیں جن میں علم کا نور ہے،اجتماعیت کا عنصر ہے، ملی شعور ہے،اسلامیت کا احساس لاکھ مٹانے کے باوجود ان سے چمٹا رہتا ہے، ان عناصر کو ملائیے تو زبان پر خود بخود جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے اداروں کا نام آ جاتا ہے، جامعہ کے بانیوں میں شیخ الاسلام کا نام نامی ہے جنھوں نے مالٹا کی اسیری کو انگریز کی غلامی پر ترجیح دی، محمد علی جوہر ہیں جنھوں نے اعلان کیا کہ میں غلام ہندستان میں واپس جانا پسند نہیں کروں گا، مقام شکر ہے کہ جامعہ کے طلبہ و طالبات نے ان مجاہدین آزادی کی لاج رکھی اور ملک کے دستور کی پاسداری کے لیے وہ دارورسن سے بھی نہ گھبرائے،
یہ سچ ہے کہ آصف اقبال تنہا اور صفورا زرگر اور اسیران جامعہ جیسے جیالے جس ملک میں ہوں گے اس ملک میں فسطائیت کی شکست لازمی ہے، ظالم کی ہار کا وقت مقرر ہے، انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اسکے خالق نے تو اسے قید کرنے اور ان پر قانون تفریق کا شکنجہ کسنے کا خلاف فطرت خواب دیکھنے والوں کی جگ ہنسائی طے ہے ۔
ملک اس وقت کرونا کی وبا سے جوجھ رہا ہے، لاک ڈاون کے سبب بھارت کی سڑکیں قیامت کا منظر پیش کر رہی ہیں، مگر ظالم حکومت سیاسی انتقام کے جذبہ سے لاک ڈاون کا فائدہ اٹھا رہی ہے وہ اینٹی سی اے اے مظاہروں کے شرکاء کو اٹھا کر کال کوٹھری میں پہنچا رہی ہے ، وہ ظلم پر سوال کھڑے کرنے والوں کے گھر پر چھاپے مروا رہی ہے، مگر وہ بھول گئی کہ وہ ان حرکتوں سے پیام شکست دے رہی ہے ۔
اسیران جامعہ حوصلہ رکھو ! اسیری سے کامیابی کا فاصلہ بس قدم دو قدم رہ جاتا ہے، تم نے انسانیت کے لیے، مساوات کے لیے، عدم تفریق کے لیے اور بڑھتے ظلم کے خلاف تحریک چلائی تو کامیابی تمہارا مقدر ہے، حکومت کی اس وقت یہ بزدلانہ حرکتیں فتح کی نوید ہیں، مخالفت سے تحریکیں مضبوط ہوتی ہیں، قید و بند سے *”تنہا”* جماعت میں تبدیل ہو جاتے ہیں، طاقت کے بے جا استعمال سے طاقتور ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، مخالف ہوائیں ہمیشہ تحریکوں کو اونچی پرواز عطا کرتی ہیں، بس شرط یہ ہے کہ مظلوم جم جائیں، استقامت کو اپنا شعار بنا لیں، مشن سامنے ہو تو ہر آزمائش منزل کے قریب ہونے کا پتہ دیتی ہے، ملک مخالف قوانین کے خلاف مظاہروں کے نام پر ظالمانہ طور پر جو لوگ بھی گرفتار ہوئے، جنھوں نے قربانیاں دیں، جو اب بھی قید میں ہیں یا جو ضمانت پر جیل سے باہر ہیں انھوں نے اگر عزیمت کو اپنا مشن بنا لیا ہے تو ظالم کی ہزیمت طے ہو چکی ، مظلوم کا مشن کامیابی کے قریب ہے ، مشن زندہ تھا ، زندہ ہے۔
لاک ڈاون ختم ہوتے ہی انشاء اللہ حکومت سے پوری قوت سے سوال پوچھا جائے گا جب دنیا کرونا سے لڑرہی تھی تو تمہاری لڑائی مسلم نوجوانوں سے کیوں جاری تھی ، اسی لیے نا کہ انھوں نے ملک کو سوال پوچھنے کا حوصلہ دیا، مظلوم کی آواز بن کے ابھرے ، آئین پر تمہاری ڈکیتی کی راہ میں روڑا بن گئے، تم سمجھ رہے تھے کہ تم نے ایک طبقہ کو خوف کی افیون کھلا کر اپنا غلام بنا لیا اور ایک طبقہ کو اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے سے اپنا ہمنوا بنا لیا ، مگر ان نوجوانوں نے تمہارے خواب چور کر دیے ، بس یہی جرم تھا ان کا ، مگر آج تو یہ طلبہ و طالبات تنہا نہیں اب تو اس ملک کا ہر انصاف پسند شہری ان کی آواز ہے،ان کا ہی دست و بازو ہے۔