مسلمانوں کا فکری زوال: ایک لمحہ فکریہ
از:محمد آفتاب عالم مصباحی سیتامڑھی
عصرحاضر میں جہاں ایک طرف عالم اسلام اپنی ناکامی،خستہ حالی،زوال پذیری اورمظلومیت کا سوگ اورماتم کررہاہے،وہیں دوسری جانب اہل دانش واصحاب فکرونظراس بدحالی اوربےچارگی کی جڑتلاش کرنے میں سرگرم اورسرگرداں نظر آرہےہیں۔اس ضمن میں کچھ ارباب حل وعقداس بات کادعوی کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی زبوحالی کا سبب اسلامی حکومتوں کا زوال اور نظام خلافت کی غیرموجودگی۔جب کہ دوسرے کچھ ذی شعورافراد یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں کی درماندگی کی بنیادی وجہ آپسی خانہ جنگی اوراختلاف وانتشار کا بہران۔ہم پورے اعتماد ووثوق کے ساتھ یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں وجوہات ایک حد تک مسلم وصحیح ہیں،مگر تمام براٸیوں اورخرابیوں کی اصل جڑہمارا فکری زوال ہے،جس کی وجہ سے مسلمان اپنے سماج اورمعاشرہ میں بےچین وبےوقعت ہے۔آج عالمی سطح پر اپنی ساکھ بچانے میں ناکام وناتواں ہے۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کازوال دین اسلام کا زوال نہیں ہے،بلکہ اسلامی طرز عمل اور صالح فکر و نظر کو بالاےطاق رکھ دینے کی وجہ سے مسلمان زوال وپزمردگی کے شکار ہیں۔اس فکری زوال کے چند گوشوں کو اجاگر کرنے کی ہمت جوٹا رہاہوں۔
(١)مسلمانوں کےزوال کا خاص سبب عوامی زندگی میں کج روی اورکوتاہ بینی وتنگ نظری ہے۔جب ہم کوٸی کاروبار کرنے کا عزم وارادہ کریں تو ہمیں چاہیٸے کہ ہم اپنے معاملات وعادات کو آٸینے کی طرح صاف وشفاف رکھیں،کہیں پربھی کذب بیانی ورشوت ستانی سے کام نہ لیں،ہمیشہ سچ کا دامن تھامے رکھیں،یہی اسلام کا حکم اور طرز عمل ہے۔مگر صد حیف آج ہمارا کاروبار اورمعمولات ومشغولات میں جھوٹ،دھوکابازی اور مکروفریب کی واہ واہی اورگرم بازاری ہے۔اپنا سازوسامان اورمال فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھانا فخر اورکامیابی کا سر چشمہ سمجھتے ہیں۔یادرکھیں ایساکرنےسے وقتی طورپر چیزیں تو فروخت ہوجاتی ہیں،لیکن کاروبار سے برکتیں اوررحمتیں چلی جاتی ہیں اورمعبود حقیقی کی لعنت اور پھٹکار داخل و شامل ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کو زوال کا منھ دیکھنا پڑرہاہے۔
عوامی زندگی میں حسن اخلاق کابھی اہم کردار ہے،جس کے بارے میں فرمان مصطفی ہےکہ ”تم میں بہتروہ انسان ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں“مگر آج ہمارے معاشرے کا اندوہ ناک المیہ ہے کہ حسن اخلاق زمیں بوس ہوگی ہے اورکامیابی و سرخروی ہم سے جدا ہوگی ہے۔آج مسلمانوں کے لب و لہجے کیوں کرخت اور تلخ ہوگے ہیں؟بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوٸی مسلمان حسن اخلاق، فراخ دلی اورخندہ پیشانی سے ملے۔جب مسلمان اس معاملہ میں صالح فکر ونظر کے حامل تھے تو تاریخ نے بھی اس دور جاودانی کوجلی حرفوں میں محفوظ کیا ہے۔ہم نٕےاپنے اخلاق کی تلواراور آپسی میل جول کی رواداری سے بڑے بڑے سرماوں اوررستم زمانہ کو اپنا معتقدومتبع بنا دیا۔اسلامی فکر سے ہم نے اغیار کے اندر مثبت اثرات جھوڑے۔یہ تھا ماضی میں غیر کے ساتھ سلوک و برتاوکاواقعہ لیکن آج ہمارا رویہ اور معاملہ بالکل برعکس اور بوسیدہ ہوگیا ہے۔جب صورت حال یہ ہو تو پھر مسلمانوں کو عوامی زندگی میں پستی اورزوال سے کون بچا سکتا ہے؟
(٢)خاندانی زندگی:ہمارے مذہب نے اپنے ماننے والے کو اپنے خاندان میں ایک خوشگوار اور پرلطف زندگی گزارنے کا بہترین اصول بتایا ہے،جن پر عمل پیرا ہوکرہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔یہ دراصل اعلی فکر کا مظہر ومنبربھی ہے۔مثال کے طورپر ایک بچے کی پرداخت وپروریش کس طریقے سے ہو اسلام نے اس کی طرف بھرپوررہنماٸ اورکوشش کی ہے۔جب بچہ اپنے ماں کے پیٹ میں ہوتوماں رات ودن کس طرح بسر کرے تاکہ اس کے اثرات وعادات آنے والی زندگی پر خوب موثر اور کارگر ثابت ہوں۔اس طرح کی انگنت مثاليں ہمارے دین برسوں سے موجود ہیں۔اسلام نے انسان کو ہر موڑ پر سلیقہ زندگی کا پاٹھ پڑھایا اور سیکھایا ہےاور ایک کامياب آدمی بننے کا سراغ بھی بتایا ہے۔مگر انتہائی شرم کی بات ہے کہ آج ہم تعليم اسلام اور طریقہ دین کو بھولا کر غیروں کے تلوے چاٹنے لگے ہیں۔اپنی تعلیم گاہ سے راہ فراراختیار کرکے غیروں کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیے ہیں۔ہم اسلامی فکر سے کوسوں دور نکل چکے ہیں۔دنیاوی چکاچونداوروقتی کامیابی کو مرکز نظر بنا کر بچوں کی پرورش اورکامیاب تعلیم گاہ کے انتخاب میں حق بجانب فیصلہ نہیں کرتے بلکہ ایک غیر جانب دار فیصلہ کر بیٹھتے ہیں،ہماری نگاہ سے یہ بات اوجھل ہو جاتی ہے کہ وہاں ہمارے بچے کی تعلیم و تربیت صحیح ڈھنگ سے ہوگی یا نہیں۔اس طرح کا طرز عمل ہمارے مستقبل کے لیے خطرناک اور المناک ثابت ہو سکتا ہے۔
(٣)آداب جہاں گیری:مسلمانوں کے زوال کا ایک اہم سبب اسلامی طرز حکومت کامٹ اور بھول جانا ہے۔ایک مسلم قاٸداورحکمراں کو بے غرض،بدعنوان اورخودغرضی سےپاک ہونا بے حد ضروری ہے۔دورحاضر کا المیہ یہ ہے کہ آج مسلم حکمراں اور قاٸداسلامی فکرناطہ توڑ چکے ہیں،پھر مسلمان ان کی قیادت سے کیسے مستفیذ ہو سکتا ہے۔تاریخ شاہد ہے جب مسلم قاٸدفکراسلامی کا پاسبان وپاسدارتھا تو بلاتفریق مذہب وملت سبھی ان سے مستفیذ ہوا کرتے تھے۔بلا تفصیل ان تمام کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج مسلمانوں نے خود ہی اپنے زوال کی داستان لکھی ہے۔اپنے ہاتھوں سے ہی تباہی وبربادی کا راستہ نکالے ہیں۔آج خستہ حالی،مظلومی وناکامی پرواویلا مچانے کے بجاے اپنےافکارونظریات اور طرز عمل کی اصلاح کریں،کیوں کہ اس کے بعد ہی عظمت رفتہ کی بحالی اورروشن مستقبل کی کرن پھوٹ سکتی ہے۔