خبریںقومی

ڈاکٹر ظفرالاسلام کے گھر پر چھاپہ، دہلی پولیس کا جانبدارانہ اقدام اور غیر قانونی کاروائی ہے: ڈاکٹر تسلیم رحمانی

نئی دہلی: ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے دلی پولیس کی ڈاکٹر ظفر الاسلام کے گھر پر چھاپہ ماری کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے پولیس کی جانب دارانہ کاروائی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے اسپیشل سیل فورس کے عہدیداروں نےآج افطار سے قبل دہلی مینارٹیز کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے گھر پہنچے اور شائد وہ خان صاحب سے پوچھ تاچھ کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انہیں اپنے ساتھ پولیس تھانے لے جانا چاہتے تھے۔ اس کے تھوڑی دیر کے بعد ہی ان کے وکیل کاایک خط/پیغام آیا جس میں انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے پیش نظر آئی پی سی کے مختلف سیکشن کے حوالے سےبتایاکہ اس دوران 72سے زیادہ عمر کے کسی بھی آدمی کو ان کے گھر کے باہر لے جانے کا حق پولیس کو نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی پولیس کے گھر پہنچ گئی تو بلکل غیر قانونی کارروائی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ دہلی پولیس کو ان کا اپنا قانون معلوم ہونا چاہیے کہ کس صورت میں کیا کرنا ہے۔

یہ حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی ایک ایف آئی آر کو بہانہ بنا کر پولیس کسی بھی سینئر سٹیزن اور ملک و عالمی پہچان رکھنے والے نامور دانشور صحافی و معزز شخص کو گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان صاحب سینئر سیٹیزن بھی ہیں اس کے علاوہ پورے ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی ان کو جانا جاتا ہے جو چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا ہیں۔

پولیس کے اہلکار خود قانون سے ناواقف ہیں۔ ایسے فرد کو جس پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے کی خود پولیس اپنی طور انویسٹیگیشن کرتے ہوئے آگے کی قانونی کاروائی کرنا چاہیے، بجائے اس کے افطار سے قبل گھر پہنچ کر انہیں اٹھانے کے لئے کیسے گھر پر چھاپہ مارسکتی ہے؟ یہ صرف ایک بہانہ ہے۔

ظفرالاسلام صاحب جیسے ایک سینئر آدمی کے گھر پر پولیس کی اس کارروائی کرنے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ یہ دہلی پولیس کا سیلکٹیو قسم کا اپروچ ہے۔ ایک قسم کی معاندانہ حرکت/ کاروائی ہے جو دلی پولیس کرنا چاہتی ہے. اس سے صاف ظاہر ہے کہ دلی پولیس ایک کمیونل انداز میں کارروائی کر رہی ہے۔

جواصل مجرم ہے دلی کے فسادات کے ان کو کھلے عام چھوڑ دیا گیا ہے اور مختلف قسم کے بھڑکاؤ بھاشن دینے والوں پر ایک ایف آئی آرتک درج نہیں کی گئی۔ این آرسی اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر کھلے عام گولیاں چلانے والوں کے خلاف کیا کارروائیاں کی گئی ہیں؟ وہ ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہے. لیکن ظفر الاسلام جیسے پڑھے لکھے صحافی کو کچھ اس انداز سے پولیس اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے جیسا کہ وہ سب سے بڑے پیشہ ور مجرم ہیں۔یہ بالکل وہی انداز ہے جو ملک کے دوسرے سینئر لوگوں کے ساتھ بھی کیا جارہا ہے‌۔ اسی طرح ہم  واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دلی پولیس یا کوئی بھی سرکاری ایجنسی اگر کوئی غیر قانونی طور پر قسم کی کارروائی کرتی ہے تو اس کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ڈاکٹر سلیم رحمانی نے اپنے بیان کے آخر میں یہ بھی بتایا کہ میں اپیل کرتا ہو کہ دلی پولیس یا کوئی سرکاری ایجنسی یہ سمجھ نہ لیں کے لاک ڈاؤن کا بہانے ایسی کوئی غلطی نہ کریں کہ لوگ باہر نہیں آئیں گے، کوئی احتجاج نہیں کریں گے۔ لوگ دیکھیں گے سوشل میڈیا میں سوشل ڈسٹنس کو مین ٹین کرتے ہوئے بھی کئی ایک پر امن طریقے موجود ہیں۔ جس کو اپناکر احتجاج کریں گے اور اس سے پہلے کے لوگ احتجاج پر مجبور ہوں میں یہ درخواست کرتا ہوں مرکزی و دلی سرکار اور پولیس سے کہ وہ کوئی غیر قانونی کارروائی نہ کریں قانون کے مطابق کام کریں۔اور اگر اس قسم کی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں تو ان کی بنیاد پر پولیس کی ذمہ داری کہ وہ پہلے اپنے طور پر انویسٹیگیشن کرلیں، پولیس کو بھی معلوم ہے کہ ایسی حرکتوں سے انہیں بار بار عدالت میں بھی پھٹکار سننے کو مل رہی ہے۔ جس سے ملک کی فضا کو خراب کرنے اور سماجی تفریق بنانے کی کوشش ہوتی ہے وہ کوشش دلی پولیس کر رہی ہے

میڈیا کے ہاتھوں میں نفرت کے سیٹوں پر پولیس خاموش اور تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ میں یہ درخواست کرتا ہوں دلی پولیس  ملک کی فضا کو پولیس خود خراب برائے کرم نہ کریں۔ میں دلی کے عوام سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ صبر وتحمل کے ساتھ رہی۔ اگر کسی تحریک کی ضرورت پڑے تو سوشل ڈسٹینس کومنٹین کرتے ہوئے تحریک چلائی جائے گی۔ لیکن ان چیزوں کو جو ظالمانہ قوانین ہے اور جو ظالمانہ انداز میں کام کرنے کا یہ طریقہ کار کو اسے دلی کے لوگ برداشت نہیں کریں گے ظفر الاسلام خان صاحب پر ایسی کوئی کاروائی نہیں ہونی چاہیے جو قانون کے خلاف ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!