مضامینمعلوماتی

بسونا کے وَچن

محمدیوسف رحیم بیدری

آج 26/اپریل کو مہاتمابسویشور کی جینتی ایک ایسے وقت منائی جارہی ہے جبکہ ساری دنیا کوروناوائرس کے حشرسامانیوں کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں محصور ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بید رضلع کا بسواکلیان تعلقہ بسونا کی کرم بھومی رہاہے۔ 12ویں صدی میں یہاں راجہ بجل ایک حکمران تھاجس کے ہاں بسونا وزیر کی حیثیت سے مامور تھے۔بسویشور نے کنڑا زبان میں لکھے گئے اپنے وچن سے سماجی نابرابری کے خلاف ہتھیار کا کام لیا۔ اور اس معاشرے کی بیخ کنی کی جو سماج میں اونچ نیچ کوجگہ دیتاہے۔
آج بسویشورکے وچن خصوصاً ریاست کرناٹک کے کنڑی ادب اور کنڑی معاشرے میں ایک روح کی طرح جاری وساری ہیں۔ نہایت مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر یم ایم کلبرگی نے لکھا ہے کہ ”وچن، وید، بائبل، قرآن کی طرح ”مقدس ادب“ ہیں۔ ایسا ادب بنیادی سطح پر شرنوں کامقدس کلام ہوتاہے“

ڈاکٹر یم یم کلبرگی نے وچن کاموازنہ وید، بائبل اور قرآن سے کیاہے۔ جو ممکن نہیں ہے۔ خصوصاً قرآن کے بارے میں وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے۔ یہ کلام اللہ ہے۔ جس نے دنیا بنائی اس نے اس کلام کو اپنے مخصوص فرشتے حضرت جبرئیل کے ذریعہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔
ایک ایسے وقت جبکہ ہماراملک زعفرانی حملوں کی زد میں ہے۔ دلت، مسلم، اوبی سی زندگی کے ہر میدان میں علیحدہ کئے جارہے ہیں۔ ایسے میں بسویشور کے وچنوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
بسویشو رنے کہاتھا۔
یوں کہتے ہیں،
کھانا کھلانے میں، پاکی کانقصان کرلیا،
”رشتہ“ ڈھونڈنے میں ذات پات ڈھونڈتے ہو
ان کوبھگت کیسے کہوں؟
ان کو نیک کیسے کہوں؟
سنو…اے کوڈلا سنگمادیوا
یہ ایساہی ہے جیسے ناپاک عورت کا،
پاک پانی میں نہانا
”رشتہ“ ڈھونڈنے میں ”ذات پات“ ڈھونڈتے ہو، بسونا کایہ کہنا کئی معنی رکھتاہے۔ اسلئے کہ ”رشتہ“ لفظ کئی معنی کاحامل ہے۔ ذات پات توسامنے کی با ت ہے۔ رشتہ کواگر سیاسی دھرم سے تشبیہ دی جائے تو وہ دھرم بھی ذات پات دیکھ کر لنگایت مذہب کے سیاسی قائدین نبھا رہے ہیں۔ ایسے قائدین کو زعفرانی بریگیڈ کہاجاتاہے۔وہ آج غور کریں کہ وہ کیاکررہے ہیں۔ کون سا رشتہ، کون سا دھرم نبھا رہے ہیں؟

افسوس تو اسی بات کا ہے کہ اسی بسونا کوماننے والے آج انسانوں سے انسانوں کو علیحدہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ زانی عورتوں کا بھی ذکر بسونا نے کیاہے، وہ کہتے ہیں
اے بھائی دیکھو
بات اس کی گڑسی میٹھی
دل مگر زہریلا ہے
دعوتِ نظارہ دے کر، ایک کو
اورسے بھی جسم کا رشتہ رکھے ہے
سنو، اے کوڈلا سنگما دیوا
چور ذہن عورت پر بھروسہ مت کرو
بسونانے صحبت کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اور بری صحبت سے بچنے کی اپنے وچنوں میں تلقین کی ہے۔ لکھاہیل
نوکرکے گلے کے نقلی زیورات کی طرح
برے لوگوں کی صحبت
مناسب نہیں ہے شریفوں کے حق میں
کہ تنکابرابر ہو نہیں سکتا ہے ہیرے کے
اے کوڈلا سنگما دیوا

بسونا کی تعلیمات میں ایک خداکی تلقین ملتی ہے، اچھی صحبت کو اہمیت دی گئی ہے،اوررحم کرنے کو مذہب کی بنیاد قرار دیاگیاہے۔ وہ کہتے ہیں
کیا بے رحموں، ظالموں کاکوئی مذہب ہے؟
رحم کرنا چاہیے ہر ذی نفس پر
رحم ہی مذہب کی جڑ، بنیاد ہے
یہ نہ ہوتو
کوڈلاسنگمادیواکی خوشنودی
کبھی مل ہی نہیں سکتی تمہیں

ایک خداکی بابت ایک وچن میں لکھاہے ”خدا تو ایک ہی ہے/نام اس کے ہیں الگ“دوسرے وچن میں لکھا ہے ”کوڈلاسنگمادیوا/سخت ناراض ہوگا ان پر / جن کے دل بندگی سے خالی ہیں او ر/نکل جانے کا دے گا حکم شاہی بھی“اسی خدا سے تعلق کی بابت ایسی شاعری کی ہے کہ پڑھ کر آنکھ سے آنسورواں ہوں۔ لکھتے ہیں۔
جال میں صیاد کے
اک پرندہ جیساہوں
ماں سے بچھڑے ہوئے ہرن کے بچے کی طرح ہوں
لاچاری سے گڑگڑارہاہوں
کس کے پاس جاؤں
کہہ نہیں سکتاکسی سے
ماں بھی تو ہی…باپ بھی تو ہی
تو ہی ہے پرسانِ حال
اوریہ رشتہ…اٹوٹ
اے کوڈلا سنگما دیوا

ضرورت اس بات کی ہے کہ بسویشو رکے وچن کا گہرائی سے مطالعہ کیاجائے۔ تاکہ جو اچھائی ہے اس مذہب کی، اسی مذہب کے ماننے والوں کے سامنے رکھ کر انہیں دعوت دی جاسکے۔ یاان سے خیر کے کام میں تعاون لیاجاسکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!