بیدر: لاک ڈاؤن میں انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے مزید افراد کی ضرورت: محمدعامر پاشاہ
بیدر: 23/اپریل (وائی آر) ملک بھر میں کوویڈ 19کے سبب لاک ڈاؤ ن جاری ہے۔ مگر بیدر کا وہ علاقہ جو وارڈ نمبر1سے وارڈ نمبر 12تک ہے وہ پوری طرح سیل ڈاؤن ہے کہہ سکتے ہیں۔ ضلع انتظامیہ کا کہناہے کہ کوئی حرکت نہ ہو، سب اپنے گھروں میں قیام کریں اس سے کووڈ۔19پرقابوپانے میں مددملے گی۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ less movement, More Workمطلوب ہے۔ جن این جی اوز نے مل کر رابطہ ئملت بنایاتھا، انھوں نے 4-5دن تک اسٹڈی کی اور نہ کے برابر حرکت سے متعلق ضلع انتظامیہ سے بات چیت کی۔ اورکہاکہ سیل ڈاؤن سے مزید مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
فی الحال سبھی کا کام بند ہے لیکن جن کی یافت کم ہے، جیسے آٹو چلانے والے، پنکچر جوڑنے والے، فروٹ فروش، سنٹرنگ اور پلاسٹر کاکا م کرنے والے تعمیراتی مزدور، وغیرہ کاگذارا کیسے چل رہاہے وہی جانیں لیکن متوسط طبقہ بھی تکالیف کاشکار ہے۔ جو 10ہزار روپیوں کامال لاکر مارکیٹ میں فروخت کرکے 11ہزار روپئے بناتاہے وہ بھی لاک ڈاؤ ن میں پریشان ہے۔ ان کی پریشانیوں کو کس طرح دور کیاجائے اس پر غور کرنا تھا۔ یہ باتیں نوجوان سماجی کارکن جناب محمدعامر پاشاہ نے کہیں۔
انھوں نے ہمیں بتایاکہ میں چونکہ لاک ڈاؤن کے آغاز سے اب تک ساتھ ساتھ رہاہوں، میں بھی اس ملت اور انسانیت کے لئے کچھ کرنا چاہتاہوں، اورگذشتہ ایک ماہ کے دوران جوکچھ دیکھاہے اس حوالے سے کہہ رہاہوں کہ ضلع انتظامیہ کاارادہ میڈیکل اسٹورتک بند کردینے کاتھا۔ لوگوں کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے ضلع انتظامیہ سے نمائندگی پر دوکانوں کے ذریعہ رقم دینے پر ادویات قدیم شہر کے مریضوں کو مل رہی ہیں۔ آگے کب تک ملیں گی کہہ نہیں سکتے۔ضلع انتظامیہ نے اک سیٹ اپ بنایا جس میں دودھ، ترکاری، کرانہ کی گھروں تک سرویس کے لئے Vendorدئے گئے۔ پینے کے صاف پانی کی خریداری کاموقع بھی دیاگیااور گھر گھر پانی پہنچایاجارہاہے۔ پھر مذکورہ اشیاء قدیم شہر میں پہنچ رہی ہیں یا نہیں، اس پر نگاہ رکھنے کو 2-3والنٹئرس دئے۔ جو Vendorsآرہے ہیں ان سے وہی لوگ خریدیں گے جن کے پاس پیسہ ہے۔ میں جس محلہ میں رہتاہوں وہ 5-6ہزار کی آبادی والا محلہ ہے جس میں 600 تا700لوگ بی پی ایل کارڈ دہندگان ہیں۔
حکومت نے ان میں چاول تقسیم کردیا ہے۔ صرف چاول لے کر کوئی زندگی کیسے گذار ے گا؟چاول کو کھانے کے لئے نمک، دال، ٹماٹر، اور پیازلگتی ہی ہے۔ ایسے میں حلقہ واری کمیٹیوں کاکام اہم ہوجاتاہے۔ تمام محلہ جات کا سروے کرنے کے بعد 100-150راشن کٹ کی تقسیم سے معاملہ تھوڑا ساکنڑول ہواہے۔ رابطہئ ملت سے بھی ہر محلہ کو 40-50راشن کٹ (دوتین دن کے دوران) محلہ واری والنٹیرنے مسجد کے آس پاس کے ذمہ داران کودئے ہیں۔ اور بھی لوگوں کے مطالبات ہیں اس پر بھی کام ہورہاہے۔
جناب عامر پاشاہ نے مزید بتایاکہ پلاسٹر، سنٹرنگ، گڑھے کھودنے والے وغیرہ کے گھروں میں ماں باپ یا کوئی اور بیمارضرور ہے۔ عمومی طورپر بی پی، شوگر، تھائیرائیڈ اورقلب کی دیگر بیماریوں کی شکایت عام ہے۔ ایسے اشخاص کی شناخت کرکے ایک ماہ کی گولیاں ان کے مکانات تک پہنچائی گئیں۔ اس عمل سے کہہ سکتاہوں کہ 30فیصدتک راحت پہنچی ہے۔ مزید کام کی ضرورت ہے۔ موصوف نے دیگر ایسے افراد کا ذکرکیا جو اپنانا م ظاہر نہ کرتے ہوئے حمیلہ پور، ابوالفیض، چدری اور میلور علاقوں میں غرباء تک امداد پہنچارہے ہیں۔ جس سے 30فیصد تک راحت ہے۔ یہی زمینی حقائق ہیں۔ البتہ زیادہ تکلیف دواخانوں کے انتظام کی ہے۔ میٹرنٹی، اطفال، ہڈیوں اور ڈائلیسس کے مسائل روزمرہ کے ہیں۔یہ مسائل 40فیصد بھی حل نہیں ہورہے ہیں۔ بہت بیمار لوگ ہیں تو انہیں قدیم شہر سے باہر پولیس جانے تو دے دیتی ہے لیکن جب سرکاری اسپتال میں مریض کو دِکھا کرواپسی ہوتی ہے تو داخلہ نہیں ملتا۔ گھنٹہ بھر کی کشمکش کے بعد پولیس اندرآنے داخلہ دیتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ سیل ڈاؤن سے صدفیصد بیماری کو روکا جاسکتاہے تو پھر قدیم شہر میں واقع100بستروں کے اسپتال کو پوری طرح کھول دینا چاہیے۔ اس سے کافی راحت مل سکتی ہے۔
میٹرنٹی کے مسئلہ اور ایک آدھ بیماری کے تعلق سے اندرون شہر میں حیات اسپتال کو ذمہ داری دی گئی ہے۔ اور انھیں صبح 8بجے سے رات 8بجے تک کھلا رکھنے کی اجازت تھی۔ اب وہ بھی شام 4بجے تک کردی گئی ہے۔ ہم نے اپنے سماجی کارکن بھائیوں کے ساتھ جاکر اس اسپتال کاجائزہ لیا ہے۔ یہاں فرسٹ ایڈ مل سکتاہے لیکن سیزرنگ، آرتھو ٹریٹمنٹ، یا بچوں کے گرجانے کی صورت میں کوئی سہولت علاج کی نہیں ہے۔ ایک اورمسئلہ ہے، وہ ہے پولیس پٹائی، کہیں نہ کہیں پر پولیس ڈنڈا چلا ہی دیتی ہے۔جینوین آدمی گھر سے باہرنکلنے کی ہمت کرہی نہیں رہاہے۔ دوائی کی ضرورت ہے یارقم کی ضرورت ہے اور اس کولینے جارہاہے کہ پولیس روک دیتی ہے۔ اس کے بعد کی کارروائی سے ہر شریف آدمی ڈرتاہے۔ کرانہ لینے کچھ افراد ماہانہ ادھار لیتے ہیں وہ الاٹ کردہ کرانہ کی دوکانوں کو جانہیں سکتے۔ ضرورت کی چیزوں جیسے دودھ، دوائی وغیرہ کے لئے جاتے ہوئے گاڑیاں سیل کردی گئی ہیں۔ فائن بھر کر گاڑی واپس لینے کے لئے رقم نہیں ہے۔
جناب عامرپاشاہ نے یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھاکہ کسی بھی NGOکو حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں ہے۔ جو کچھ ملتاہے وہ زکوٰۃ، عطیات شہر وبیرون شہر کے اہل خیرسے ملتا ہے۔ اس لئے میری گذارش ہے کہ این جی اوز کے علاوہ سیاسی والنٹئرس کو بھی کام کے لئے آگے آناچاہیے۔ دوسری جانب کچھ ایسے والنٹئرس ہیں جو اپنی مرضی سے کام کرناچاہتے ہیں لیکن ضلع انتظامیہ انہیں موقع نہیں دے رہاہے۔ وہ ان کے بارے میں جانچ پڑتال کے بعد کام کاموقع دے یہ میری ضلع انتظامیہ سے گذار ش ہے۔ اسی کیساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہے کہ زکوٰۃ وعطیات مدرسوں کے ضرورت مند طلبہ کے لئے بھی اہل خیر علیحدہ سے رکھیں۔ ہماری دعا ہے کہ لاک ڈاؤن جلد سے جلد ختم ہو، کوروناکی خطرناکی میں ختم ہوتاکہ زندگی حسب معمول پٹری پر آسکے۔